ایران میں سیکس یا جنسی تعلقات جیسا موضوع اب شجر ممنوعہ نہیں رہے گا۔ اب اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں اس موضوع سے متعلق خصوصی اسباق شامل کیے جائیں گے تاکہ نئی نسل کو جنسی رویوں سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے۔
اشتہار
انقلاب ایران کی تقریباﹰ چار دہائیوں بعد جنسی تعلقات یا پھر سیکس سے متعلق کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران کی نوجوان نسل میں شادی کے بغیر جنسی تعلقات کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ سن 2014 میں ایرانی پارلیمانی ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے 82 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ دا اکنامسٹ جریدے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ایران کے نہ صرف نوجوان بالغ جنسی طور پر سرگرم ہیں بلکہ ستر سے اسی فیصد غیر شادی شدہ لڑکیوں کے بھی بوائے فرینڈ ہیں۔ اس رپورٹ میں سکینڈری اسکول کے طالب علموں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔
ایرانی لڑکیوں کے تنگ، چُست اور رنگا رنگ ملبوسات
انقلاب ایران کے بعد ایک ضابطہٴ لباس بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اس کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ اب ایرانی لڑکیوں کے لباس تنگ اور رنگین ہوتے جا رہے ہیں اور وہ حکومتی اداروں کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہیں۔
تصویر: IRNA
بال نظر نہ آئیں
ایران میں 1979ء کے بعد سے یہ قانون نافذ ہے کہ خواتین ’مہذب‘ لباس پہنیں گی۔ ضابطہٴ لباس کے مطابق خواتین کے سَر مکمل طور پر ڈھکے ہونے چاہییں، پتلون یا شلوار لمبی ہونی چاہیے اور ممکن ہو تو ملبوسات کے رنگ گہرے اور سیاہ ہونے چاہییں۔
تصویر: Isna
خاموش مزاحمت
گزشتہ سینتیس برسوں سے زائد عرصے سے ایرانی خواتین ضابطہٴ لباس کے خلاف خاموش مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین اسکارف اور لمبا کوٹ تو پہنتی ہیں لیکن اپنے انداز میں۔ اسکارف کے ساتھ بال بھی نظر آتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
بار بار معائنہ
پولیس کی نظر میں رنگین اور نئے ڈیزائن کے کپڑے ناپسندیدہ ہیں۔ ہر سال موسم گرما میں ایرانی سڑکوں پر ’اخلاقی پولیس‘ کے اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ جو بھی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، اسے روک لیا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر بحث و مباحثے کا آغاز ہو جاتا ہے کہ آیا واقعی سب کچھ ضابطہٴ لباس کے عین مطابق ہے۔
تصویر: ISNA
سخت نتائج
اگر ’اخلاقی پولیس‘ مطمئن نہیں ہوتی تو جرمانہ کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات گرفتار بھی۔ گرفتار ہونے والی خواتین کو تحریری طور پر لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ ضابطہٴ لباس کی خلاف ورزی نہیں کریں گی۔
تصویر: FARS
کپڑے رنگین، چُست اور مختصر
متعدد ایرانی لڑکیاں ان حکومتی جرمانوں سے بے خوف نظر آتی ہیں۔ ’اخلاقی پولیس‘ کی مسلسل نگرانی کے باوجود نوجوان لڑکیاں رنگین، چھوٹے اور تنگ لباس پہنے نظر آتی ہیں۔ متعدد ماڈلز سوشل میڈیا میں نئے فیشن کے لباس پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Hasan Koleini
دباؤ کے باوجود نئے فیشن
ایرانی ماڈل شبنم مولاوی کی تصویر امریکی فیشن میگزین FSHN کے سرورق پر شائع ہوئی تھی۔ مئی میں اس ماڈل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس ماڈل پر ’غیراسلامی ثقافت کی تشہیر‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن چند دن بعد ہی اسے ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
تصویر: fshnmagazine.com
روحانی حکومت اور پردہ
روحانی کی حکومت میں پردے کے معاملے میں نرمی برتے جانے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن نئے فیشن کے کپڑوں کی دلدادہ خواتین کے لیے یہ حکومت بھی ’سخت‘ ثابت ہوئی ہے۔ خواتین نئے فیشن کے ملبوسات پر کوئی سمجھوتہ کرتی نظر نہیں آتیں۔
تصویر: Isna
خالی وعدے
صدر حسن روحانی نے 2012ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’سڑکوں پر خواتین کو ہراساں‘ کیے جانے کے عمل کا خاتمہ کر دیں گے۔ لیکن ڈریس کوڈ کی نگرانی کے ذمہ دار 20 اداروں میں سے چند ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: FARS
خفیہ اخلاقی پولیس
اب تہران حکومت نے ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ بھی متعارف کروا دی ہے۔ رواں برس اپریل میں تہران پولیس کے سربراہ نے کہا تھا کہ سات ہزار خواتین اور مردوں کو بھرتی کیا گیا ہے، جو ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ کا کردار ادا کریں گے۔
تصویر: cdn
انٹرنیٹ پر یکجہتی
جولائی میں سوشل میڈیا پر ایرانی نوجوان مردوں کی طرف سے خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ ضابطہٴ لباس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نوجوان لڑکوں نے اپنے سروں پر اسکارف لے کر تصاویر پوسٹ کرنا شروع کر دی تھیں۔
تصویر: facebook/my stealthy freedom
10 تصاویر1 | 10
ایران میں کروائے گئے اس سروے میں ایک لاکھ بیالیس ہزار طالب علم شامل تھے۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایران میں پیش کی جانے والی یہ پہلی رپورٹ تھی۔
اس رپورٹ کے بعد سن 2015 کے آغاز میں تہران حکومت نے ملک میں ’غیر اخلاقی ڈیٹِنگ ویب سائٹس‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے شادی سے متعلق ایک سرکاری ویب سائٹ لانچ کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ تیس برس سے کم عمر نوجوانوں کو ’مستقل شادی‘ کی طرف راغب ہوں۔ ایران کی آبادی تقریباﹰ 77 ملین نفوس پر مشتمل ہے اور ان میں سے پچپن فیصد افراد کی عمریں تیس برس سے بھی کم ہیں۔
ایران میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات سختی سے منع ہیں جبکہ ملک کے خراب معاشی حالات کی وجہ سے بھی بہت سے ایرانی نوجوانوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اور وہ مستقل شادی سےگریزاں ہیں۔
اب ایران میں جنسی تعلیم فراہم کرنے سے متعلق فیصلہ حکومت کی طرف سے کیے گئے ایک ثقافتی کمیشن کی طرف سے کیا گیا ہے، جس کے تحت نصابی کتابوں میں سیکس اور جنسی تعلقات کے حوالے سے بنیادی تعلیم فراہم کی جائے گی۔
اس کمیشن کے ایک رکن غلام علی حداد عادل کا ایسنا نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اب اصطلاح سیکس کوئی ممنوعہ اصطلاح نہیں رہے گی۔‘‘ اسی طرح "خاندانی اور جنسی صحت" کے نام سے ایک نیا سبجیکٹ بھی متعارف کروایا جائے گا۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران میں جنسی موضوعات کو شجر ممنوعہ کی حیثیت حاصل ہے لیکن ملک کی نوجوان نسل مغربی فلموں، انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں کی وجہ سے اس حوالے سے کھلی ذہنیت رکھتی ہے۔