ایران کے اعلیٰ ترین سکیورٹی اہلکاروں میں سے ایک نے افغانستان میں کئی برسوں سے کابل حکومت اور امریکا کی قیادت میں نیٹو کے فوجی دستوں کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے والے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق کر دی ہے۔
اشتہار
ایرانی دارالحکومت تہران سے بدھ چھبیس دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم نے بتایا کہ افغانستان کے ہمسایہ ملک ایران میں سلامتی کے نگران اعلیٰ ترین ریاستی ادارے کے حکام نے افغان طالبان کے نمائندوں سے مکالمت کی تصدیق کر دی ہے۔
ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شام خانی نے تسنیم کو بتایا، ’’افغان حکومت کو اطلاع کر دی گئی ہے کہ ایران نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں اور یہ عمل آئندہ بھی جاری رہے گا۔‘‘
ایرانی نیوز ایجنسی تسنیم کو اسلامی جمہوریہ ایران کے بہت بااثر اور پاسداران انقلاب کہلانے والے دستوں کے انتہائی قریب سمجھا جاتا ہے۔ اس بارے میں اپنے مراسلے میں تسنیم نے یہ نہیں بتایا کہ ایرانی حکام اور افغان طالبان کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کہاں ہوئے۔
اسی دوران تسنیم اور چند دیگر خبر رساں اداروں نے بھی بتایا ہے کہ اس بات چیت کے حوالے سے علی شام خانی نے افغان حکام کو ان کے ساتھ اپنی اس گفتگو میں آگاہ کیا جو شام خانی کے دورہ کابل کے دوران آج بدھ کے روز ہوئی۔
ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری شام خانی نے کابل میں افغان حکام کے ساتھ اپنی ملاقات میں انہیں بتایا، ’’اسلامی جمہوریہ (ایران) ہمیشہ ہی سے خطے میں استحکام کے لیے اہم ترین ستونوں میں سے ایک رہی ہے اور دو ہمسایہ ممالک کے طور پر ایران اور افغانستان کے مابین تعاون یقینی طور پر ہندوکش کی اس ریاست کو درپیش سلامتی کے موجودہ مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو گا۔‘‘
م م / ا ا / اے ایف پی
ایران سے افغان مہاجرین کی تکلیف دہ واپسی
اقوام متحدہ کے مطابق ہم سایہ ممالک خصوصاﹰ ایران سے مہاجرین کو جنگ زدہ ملک افغانستان واپس بھیجا جا رہا ہے۔ صرف پچھلے ہفتے ایران سے چار ہزار افغان مہاجرین کو جبراﹰ واپس ان کے وطن بھیج دیا گیا۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک غیر یقینی مستقل
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 19 تا 25 نومبر کے دوران ہزاروں افغان مہاجرین کو ایران سے افغانستان واپس لوٹایا گیا۔ اس تنظیم کا کہنا ہےکہ مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کی ایک وجہ ایران میں تارکین وطن کے لیے پناہ گاہوں کی اب تر ہوتی صورت حال ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک تنہا سڑک
عالمی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 89 فیصد مہاجرین، جنہیں واپس افغانستان بھیجا گیا، تنہا تھے، جن میں سے بڑی تعداد تنہا مردوں کی تھی۔ واپس بھیجے جانے والے مہاجرین میں فقط سات خواتین تھیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
پرانے مہاجرین کا تحفظ
افغان مہاجرین کو شدید سردی کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم نے اس دوران ساڑھے سات سو مہاجر گروپوں کی امداد کی جن میں 127 تنہا بچے بھی شامل تھے، جب کہ 80 افراد کو طبی امداد دی گئی۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایران میں مہاجرین سے نامناسب برتاؤ
اس شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران میں اسے بے دخل کرنے سے قبل ڈنڈے سے پیٹا گیا۔ اس کے مطابق اس کے پاس ایران میں کام کرنے کے باقاعدہ کاغذات بھی تھے مگر اسے واپس بھیج دیا گیا۔ ہرات میں ایرانی قونصل خانے کے ایک عہدیدار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغان مہاجرین کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار نہیں کی جا رہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
سخت سردی میں گھر واپسی کا راستہ بھی نہیں
ایران بدر کیے جانے والے اس مہاجر نے نام نہیں بتایا مگر اسے بارہ دن تک ایک حراستی مرکز میں کام کرنا پڑا تاکہ وہ اس قید سے نکل سکے۔ ’’یہاں سخت سردی ہے اور میری رگوں میں لہو جم رہا ہے۔‘‘ میں نے اپنا فون تک بیچ دیا تاکہ مجھے رہائی ملے۔ اب میں یہاں سرحد پر ہوں اور گھر واپسی تک کے پیسے نہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مشکل زندگی کو واپسی
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رواں برس ایران اور پاکستان سے وطن واپس پہنچے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ قریب 90 ہزار افراد افغانستان میں داخلی طور پر بے گھر ہیں اور مختلف کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔