تہران نے امریکا اور دیگر یورپی ملکوں کے ساتھ سن 2015 کے جوہری معاہدے کے حوالے سے غیر رسمی بات چیت کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ امریکا پہلے عائد پابندیوں کو ختم کرے۔
اشتہار
واشنگٹن نے اتوار کو کہا اسے اس بات سے ”مایوسی‘‘ہوئی ہے کہ ایران نے امریکا اورسن 2015 کے جوہری معاہدے میں شامل دیگر ملکوں کے ساتھ غیر رسمی بات چیت کرنے سے انکار کر دیا۔
تہران کا کہنا ہے کہ وہ مشترکہ جامع منصوبہ لائحہ عمل (جے سی پی ا و اے) یا ایران جوہری معاہدے پر غور وخوض کے لیے کسی میٹنگ میں اس وقت تک شامل نہیں ہوگا جب تک کہ اس پر عائد پابندیاں ختم نہیں کی جاتی ہیں۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی ISNA کے مطابق ایرانی وزات خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے کہا”پہلے امریکا اس جوہری معاہدے میں واپس آئے اور ایران پرعائد غیر قانونی پابندیاں ختم کرے... اس کے لیے کسی بات چیت کی ضرورت نہیں ہے اور جیسے ہی پابندیاں ختم کی جائیں گی ہم اپنے وعدوں پر لوٹ آئیں گے۔"
انہوں نے کہا ایران اس طر ح کے ”اشاروں‘‘ کا کوئی جواب نہیں دے گا۔ انہوں نے تاہم کہا کہ ایران اس کے باوجود یورپی یونین کے سربراہ جوسیف بوریل نیز فرانس، جرمنی، برطانیہ، چین اور روس کے ساتھ تعاون کرتا رہے گا۔
تہران کی اس اپیل کے بعد کہ واشنگٹن اس کے خلاف عائد پابندیاں ختم کرے، کیونکہ اس کی وجہ سے تہران تاریخ کے اپنے بد ترین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے، امریکا۔ ایران جوہری کشیدگی میں حالیہ دنوں میں زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔
’ایران سے خطرہ‘، اسرائیل نے میزائل دفاعی نظام فعال کر دیا
01:06
امریکا بات چیت کے لیے تیار
ایران کے بیانات کے جواب میں واشنگٹن کا کہنا ہے کہ امریکا کو مایوسی ہوئی ہے لیکن وہ اب بھی سفارت کاری شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
وائٹ ہاوس کی ترجمان کا کہنا تھا”گوکہ ہمیں ایران کے جواب سے مایوسی ہوئی ہے لیکن ہم جے سی پی او اے کے تحت کیے گئے وعدے پر باہمی طور پر عمل کرنے کے لیے ایک بامعنی سفارت کاری دوبارہ شروع کرنے کے لیے اب بھی تیار ہیں۔"
سن 2018 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو اس معاہدے سے یک طرفہ طورپر الگ کر لیا تھا۔ صدر جو بائیڈن نے اس معاہدے کو بحال کرنے کے لیے معاہدے میں شامل ایران سمیت چھ ملکوں کے گروپ کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔