ایران نے جنوبی کوریا کے ضبط جہاز اور کپتان کو چھوڑ دیا
9 اپریل 2021
ایرانی حکام نے ہانکوک چیمی نامی آئل ٹینکر کو جنوری کے اوائل میں ضبط کر لیا تھا۔ جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ جہاز کا کپتان اور عملہ خیر وعافیت سے ہیں۔
اشتہار
یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب ایران جوہری معاہدے پر آج جمعے کو اگلے دور کی بات چیت ہو رہی ہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ نے جمعے کے روز اعلان کیا کہ ایرانی حکام نے جنوبی کوریائی جہاز ہانکوک چیمی کو چھوڑ دیا اور اس کے کپتان کو رہا کر دیا ہے۔ ایرانی فورسز نے اس آئل ٹینکر کو جنوری میں آبنائے ہرمز کے نزدیک اس وقت ضبط کر لیا تھا جب یہ سعودی عرب سے متحدہ عرب امارات کے سفر پر تھا۔
جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ”کپتان اوراس کے عملہ کے افراد بخیر و عافیت اور صحت مند ہیں اور اس امر کی تصدیق ہوگئی ہے کہ جہاز اور اس کے کارگو کو کسی طرح کی پریشانی نہیں ہے۔"
تہران نے اس ہفتے کے اوائل میں ہی اعلان کیا تھا کہ وہ اس جہا ز کو چھوڑ دے گا۔ سیول کا کہنا تھا کہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے بیس سے زائد سیلرز جہاز پر ہیں۔ ایرانی رہنماوں نے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے ”ماحولیاتی آلودگی" کی وجہ سے جہاز کو روک لیا تھا لیکن جہاز کے مالکان نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
کیا یہ پیسہ اینٹھنے کی کوشش تھی؟
یہ شبہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ تہران نے جہاز کو اس لیے ضبط کیا تھا تاکہ وہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے جنوبی کوریا کے بینکوں میں منجمد اپنے اربوں ڈالر کی رقم کو جار ی کرنے کے لیے سیول پر دباؤ ڈال سکے۔
اشتہار
ایرانی حکومت کے ترجمان علی رابعی نے کہا تھا کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے سات ارب ڈالر جنوبی کوریا کے بینکوں میں پھنس گئے ہیں۔ تہران نے تاہم جہاز کو ضبط کرنے اور جنوبی کوریا کے بینکوں میں پھنسے ہوئے اس کے اربو ں ڈالر کے درمیان کسی طرح کے تعلق سے انکار کیا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیے جانے سے قبل تک ایران، جنوبی کوریا کو تیل سپلائی کرنے والے اہم ملکوں میں سے ایک تھا۔
جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ نے جہاز کو رہا کیے جانے کے متعلق جاری اپنے بیان میں ایرانی رقم کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ البتہ سیول ماضی میں امریکا کی رضامندی کے بعد منجمد رقم کو جاری کرنے کی پیش کش کر چکا ہے۔
کیااس پیش رفت کا جوہری مذاکرات پر اثر پڑ سکتا ہے؟
جنوبی کوریا کے جہاز کو چھوڑ دینے کا یہ معاملہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب ایرانی رہنما اور امریکا سمیت دنیا کی اہم طاقتیں مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے) کے نام سے مشہور ایران جوہری معاہدے پر آج جمعے کے روز اگلے دور کی با ت چیت کر رہی ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سن 2018 میں امریکا کو اس معاہدے سے یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا تاہم موجودہ صدر جو بائیڈن نے اس شرط کے ساتھ معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے کہ ایران یورینیم کو افزودہ کرنے کا عمل روک دے۔
ایران کا کہنا ہے کہ پہلے امریکا کو اس کے خلاف عائد اقتصادی پابندیاں ختم کرنی ہوگیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے ایران کی اقتصادی حالت کافی خراب ہوگئی ہے اور عالمی مالیاتی نظام سے اس کا رابطہ تقریباً منقطع ہو گیا ہے۔
ج ا / ص ز (اے پی، روئٹرز)
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔