ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے خطے میں کسی جنگ کے امکانات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک جنگ نہیں چاہتا۔ ظریف کے مطابق کوئی بھی ملک ایران کے ساتھ تنازعے کا نہیں سوچ سکتا۔
اشتہار
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی IRNA کے مطابق ملک کے اعلیٰ ترین سفارت کار محمد جواد ظریف نے خطے میں کسی جنگ کے امکان کو رد کر دیا ہے۔ اپنے دورہ چین کے اختتام سے قبل جواد ظریف نے ایرانی نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’کوئی جنگ نہیں ہو گی کیونکہ نہ تو ہم جنگ چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی کا یا خیال ہے کہ وہ خطے میں ایران کا سامنا کر سکتا ہے۔‘‘
حالیہ کچھ دنوں میں تہران اور واشنگٹن حکومتوں کے درمیان تناؤ میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ امریکا نے خطے میں اپنی عسکری موجودگی میں نمایاں اضافہ کیا ہے جب کہ چند روز قبل خلیج فارس میں تیل بردار بحری جہازوں پر ہوئے مبینہ حملوں کے بعد امریکا نے عراق میں اپنے سفارت خانوں سے ایمرجنسی عملے کے علاوہ باقی سب کو وہاں سے نکال لیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر چکے ہیں اور خلیج کے علاقے میں امریکی ملٹری موجودگی کافی زیادہ بڑھ چکی ہے جس کی وجہ ایران کی طرف سے امریکی مفادات کو ممکنہ خطرات کو قرار دیا گیا ہے۔ تاہم تہران نے اس اقدامات کو ’نفسیاتی جنگ‘ اور ’سیاسی کھیل‘ قرار دیا گیا ہے۔
جواد ظریف کے مطابق، ’’حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ باقاعدہ طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے، لیکن ان کے گرد موجود لوگ انہیں اس تناظر میں جنگ پر اُکسا رہے ہیں کہ وہ امریکا کو ایران کے مقابلے میں مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے گزشتہ ماہ خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں کہا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اپنے سکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن جیسے لوگوں کی باتوں میں آ کر تنازعے میں جانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔