ایران نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کی طرف سے مفاہمتی لہجے کا خیر مقدم کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کے سیاسی اختلافات جلد ہی دور ہو جائیں گے۔
اشتہار
ایران کی خبر رساں ایجنسی آئی ایس این اے کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب اسلامی دنیا کے دو اہم ممالک ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خطے میں امن اور استحکام کی قیادت کرسکتے ہیں۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزاد ہ محمد بن سلمان نے اس ہفتے کے اوائل میں ایک انٹرویو میں ایران کے حوالے سے مفاہمتی لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا”ایران ہمسایہ ملک ہے اور ہم ایران کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔‘‘
سعودی ولی عہد نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے خطے اور دنیا میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
اشتہار
سعودی بیان کا خیرمقدم
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ایران سعودی عرب کے لہجے میں تبدیلی کا خیر مقدم کر تا ہے۔ انہوں نے کہا"ایران اور سعودی عرب خطے اور اسلامی دنیا کے دو اہم ممالک ہیں اور تعمیری خیالات اور مذاکرات پر مبنی طریقہ کار سے بات چیت اور معاونت کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔"
خطیب زادہ کا کہنا تھا ''اختلافات کے خاتمے سے امن، استحکام اور علاقائی ترقی کو فروغ ملے گا۔"
اس سے قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایران کے ساتھ تعلقات خراب کریں، اس کے برعکس ہم چاہتے ہیں کہ ایران ترقی کرے۔ ہمارے مفادات ایران سے اور ایران کے سعودی عرب سے وابستہ ہیں۔ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دے کر ہم خطے اور دنیا کو ترقی اور خوشحالی کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
لہجے میں تبدیلی
سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کو دیرینہ دشمن سمجھتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک علاقائی برتری حاصل کرنے کے لیے ایک عرصے سے بالواسطہ طور پر باہم متحارب ہیں۔ سن 2016 میں ایک معروف شیعہ عالم دین کو سعودی حکومت کی طرف سے سزائے موت دیے جانے کے بعد ایرانی مظاہرین کے سعودی سفارتی مشنوں پر ہونے والے حملے کے بعد سعودی عرب نے ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیے تھے۔
تاہم حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے لہجے میں تبدیلی دکھائی دی۔ ایران کے حوالے سے شہزادہ محمد بن سلمان کے لہجے میں یہ تبدیلی ان کے سابقہ رویے سے یکسر مختلف ہے، جس میں وہ تہران کو علاقائی عدم استحکام کو ہوا دینے کے لیے مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔
فائنانشیل ٹائمز نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ عراقی وزیر اعظم مصطفی الخادمی کے تعاون سے ریاض اور تہران کے درمیان بغداد میں 9 اپریل کو ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ عراقی حکومت کے ایک عہدیدار نے بھی ان مذاکرات کی تصدیق کی تھی جبکہ ایک مغربی سفارت کا کہنا تھا کہ انہیں ”تعلقات کو بہتر بنانے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ثالثی'' کے بارے میں ”پیشگی اطلاع"دی گئی تھی۔
ریاض نے سرکاری طورپر اس طرح کی کسی بات چیت کی تردید کی تھی تاہم ایران نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور ایک مختصر بیان میں کہا کہ تہران سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کا ”ہمیشہ خیر مقدم'' کرتا ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب خطے میں کئی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔
عمران خان کا بیان
دریں اثنا پاکستان کے وزیرا عظم عمران خان نے بھی سعودی عرب کے ایران کے ساتھ امن کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس اعتماد کا اظہا ر کیا اس سے مسلم امہ مضبوط ہوگی۔
ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک اور سعودی عرب ہمارا قریبی دوست ہے اور اس اقدام سے مسلم امہ مضبوط ہوگی۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔