ایران نے ایسے الزامات مسترد کر دیے ہیں کہ وہ عرب ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس عمل کی مذمت کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/APA
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایرانی وزارت خارجہ کے حوالے سے تیس مارچ بروز جمعرات بتایا ہے کہ تہران حکومت عرب ممالک کے داخلی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر رہی ہے۔ قبل ازیں عرب رہنماؤں نے ایران کا نام لیے بغیر ان تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ شیعہ اکثریتی ملک عرب ممالک کے معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے۔
انتیس مارچ بروز بدھ اردن میں منعقد ہوئے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں عرب رہنماؤں نے کئی علاقائی معاملات کے علاوہ عالمی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔ اسی اجلاس میں عرب رہنماؤں نے مداخلت کرنے کا تہران پر یہ الزام عائد کیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب اتحاد شام، یمن اور بحرین میں بدامنی کے لیے ایران کو قصوروار قرار دیتا ہے۔ تاہم ایران ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
اس تازہ الزام کے جواب میں تہران حکومت نے کہا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کی خودمختاری اور سالمیت کا احترام کرتی ہے اور اسے عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں ہے۔
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
جنگ سے پہلے حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا، جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا۔ موازنہ دیکھیے کہ کھنڈر بن چکے مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں۔
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
تصویر: Reuters/S. Auger
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
12 تصاویر1 | 12
ایرانی وزرات خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا ہے، ’’ہم اپنے اس افسوس کو نہیں چھپا سکتے کہ عرب اور مسلم رہنما اہم علاقائی اور عالمی مسائل سے نمٹنے اور اس بات میں ناکام ہو گئے ہیں کہ جان سکیں کہ ان کا دوست کون ہے اور دشمن کون۔‘‘
بہرام قاسمی نے عرب لیگ کے الزامات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کا ملک عرب دنیا کے معاملات میں مداخلت کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان شام اور یمن کے متحارب فریقوں کی حمایت پر کشیدگی میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔