ایران نے عرب اجلاس کے الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا
31 مئی 2019
سعودی عرب علاقائی نقطہ نظر تہران کے خلاف کرنے کی ’مایوس‘ کوشش کے لیے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ شامل ہو گیا ہے، ایران نے یہ کہتے ہوئے عرب سربراہی اجلاس میں اپنے خلاف الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔
اشتہار
سعودی عرب کے شاہ سلمان نے عرب ممالک کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ خطے میں ایرانی اشتعال انگیزیوں کو روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایران نے عرب ممالک کے اجلاس کے دوران لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے رد کر دیا ہے۔ ایرانی نیوز ایجنسی IRNA کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے بعض عرب ممالک کے سربراہان کی جانب سے بے بنیاد الزامات کو رد کیا ہے اور کہا ہے: ’’ہم سعودی کوششوں کو امریکا اور صیہونی حکومت کی طرف سے علاقائی رائے کو ایران کے خلاف کرنے کی مایوسانہ کوششوں کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘‘
بین الاقوامی برادی ایران کا سامنا کرنے کے لیے تعاون فراہم کرے، شاہ سلمان
سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان نے گزشتہ روز ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری مشترکہ طور پر سعودی حکومت کو تعاون فراہم کرے تا کہ ایران کا سامنا کیا جا سکے۔ سعودی بادشاہ نے یہ بھی کہا کہ متحدہ عرب امارات کی سمندری حدود میں تیل کے چار ٹینکروں کو نقصان پہنچانے کی کوششں علاقائی صورت حال بگاڑنے کی کوششوں کا حصہ تھا۔
خليجی خطے کی حاليہ کشيدگی، کب کب، کيا کيا ہوا
امريکا کی جانب سے فوجيوں کی تعداد میں اضافہ اور عسکری ساز و سامان کی تعيناتی، سعودی تنصيبات پر حملے و ايران کی دھمکياں۔ خليج کے خطے ميں اس وقت شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔ چند حاليہ اہم واقعات پر ڈی ڈبليو کی تصاويری گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
امريکا کی جوہری ڈيل سے دستبرداری، کشيدگی کی نئی لہر کی شروعات
ايران کی متنازعہ جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کی غرض سے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے پانے والے معاہدے سے آٹھ مئی سن 2018 کو امريکا نے يکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ايران پر اقتصادی پابندياں بحال کر ديں۔ روايتی حريف ممالک ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی کی تازہ لہر کا آغاز در اصل اسی پيش رفت سے ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
ايران کی بے بسی اور پھر جوہری ڈيل سے دستبرداری
آنے والا وقت ايرانی اقتصاديات کے ليے بے حد مشکل ثابت ہوا۔ افراط زر اور ديگر معاشی مسائل کے سائے تلے دباؤ کی شکار تہران حکومت نے رواں سال مئی کے اوائل ميں اعلان کيا کہ آٹھ مئی کو ايران اس ڈيل سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اس پيشرفت کے بعد ڈيل ميں شامل ديگر فريقين نے ايران پر زور ديا کہ ڈيل پر عملدرآمد جاری رکھا جائے تاہم تہران حکومت کے مطابق امريکا پابنديوں کے تناظر ميں ايسا ممکن نہيں۔
امريکی قومی سلامتی کے مشير جان بولٹن نے پانچ مئی کو اعلان کيا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے ’يو ايس ايس ابراہم لنکن‘ نامی بحری بيڑہ اور بمبار طيارے مشرقی وسطی ميں تعينات کيے جا رہے ہيں۔ اس اقدام کی وجہ مشرق وسطی ميں ’پريشان کن پيش رفت‘ بتائی گئی اور آئندہ دنوں ميں پيٹرياٹ ميزائل دفاعی نظام اور بی باون لڑاکا طيارے بھی روانہ کر ديے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Mass Communication Specialist 3r/U.S. Navy/AP/dpa
سعودی تنصيبات پر حملے، ايران کی طرف اشارے مگر تہران کی ترديد
متحدہ عرب امارات سے متصل سمندری علاقے ميں دو سعودی آئل ٹينکروں کو بارہ مئی کے روز حملوں ميں شديد نقصان پہنچا۔ يہ حملے فجيرہ کے بندرگاہی شہر کے قريب ہوئے جو آبنائے ہرمز کے قریب ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ ايران يہ کہتا آيا ہے کہ امريکی جارحيت کی صورت ميں وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ايران نے سعودی آئل ٹينکروں پر حملے کو ’قابل مذمت اور خطرناک‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
مسلح تنازعے سے بچاؤ کے ليے سفارت کاری
تيرہ مئی سن 2019 کو جوہری ڈيل ميں شامل يورپی فريقين نے امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو سے ملاقات کی۔ برطانيہ نے ’حادثاتی طور پر جنگ چھڑ جانے‘ سے خبردار بھی کيا۔ ايک روز بعد ہی پومپيو نے کہا کہ امريکا بنيادی طور پر ايران کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہيں۔ پھر ايرانی سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای نے بھی کشيدگی ميں کمی کے ليے بيان ديا کہ امريکا کے ساتھ جنگ نہيں ہو گی۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
امريکا ايران کشيدگی، عراق سے متاثر
اس پيش رفت کے بعد پندرہ مئی کو امريکا نے عراق ميں اپنے سفارت خانے ميں تعينات تمام غير ضروری عملے کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر ديے۔ اس فيصلے کی وجہ ايران سے منسلک عراقی مليشياز سے لاحق خطرات بتائی گئی۔ جرمنی اور ہالينڈ نے بھی عراقی فوجيوں کی تربيت کا عمل روکنے کا اعلان کر ديا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
امريکی صدر کی اب تک کی سخت ترين تنبيہ
انيسی مئی کو امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ايک بيان ميں ايران کو خبردار کيا کہ امريکی مفادات و امريکا کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانے کی کوشش کے نتيجے ميں ايرن کو تباہ کر ديا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا، ’’اگر ايران لڑنا چاہتا ہے، تو يہ اس سرزمين کا خاتمہ ہو گا۔‘‘
تصویر: Imago/UPI//Imago/Russian Look
خطے کے معاملات ميں مبينہ مداخلت پر ايران پر کڑی تنقيد
گو کہ پچھلے دنوں دونوں ممالک نے مقابلتاً نرم بيانات بھی ديے اور کشيدگی کم کرنے سے متعلق بيانات سامنے آئے تاہم کشيدگی اب تک برقرار ہے۔ انتيس مئی کو جان بولٹن نے کہا کہ انہيں تقريباً يقين ہے کہ سعودی آئل ٹينکروں پر حملے ميں ايران ملوث ہے۔ اسی روز اسلامی تعاون تنظيم کے اجلاس ميں بھی سعودی وزير خارجہ نے خطے ميں ايرانی مداخلت پر کڑی تنقيد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
8 تصاویر1 | 8
شاہ سلمان نے یہ بھی کہا کہ یمنی باغیوں کے ذریعے سعودی عرب کی تیل کی پائپ لائن پر حملے سے خلیجی تعاون کونسل کے چھ ملکوں کے سکیورٹی اور دیگر مفادات کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب امن کے قیام کی ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔
سعودی عرب میں مسلم ممالک کے تین اہم سربراہی اجلاس
ایک ایسے وقت میں جب ایران اور امریکا کے درمیان تناؤ عروج پر ہے سعودی عرب میں عرب اور مسلم ممالک کے تین اہم اجلاس ہو رہے ہیں۔ پہلا سربراہی اجلاس خلیجی تعاون کونسل کے چھ ممالک کا جمعرات 30 مئی کو ہوا۔ اس کے بعد بائیس عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ کا اجلاس بھی ہوا ہے جبکہ تیسری سمٹ مسلم ملکوں کی تنظیم آو آئی سی کی ہے جو آج جمعہ 31 مئی کو مکہ میں ہی ہو رہی ہے۔ او آئی سی کے اس اجلاس میں ستاون مسلمان ممالک کے نمائندے اور رہنما شریک ہو رہے ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھی اس سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ جمعرات تیس مئی کو او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں آج کے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے پر گفتگو کی گئی۔
سعودی عرب میں مسلمانوں کے لیے مقدس ترین شہر مکہ میں مسلم ممالک کے یہ سربراہی اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہے ہیں جب ایران کے معاملے پر خطے میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔ امریکا نے ایران سے لاحق نا معلوم خطرات کے پیش نظر نہ صرف اپنا ایک طیارہ بردار بحری بیڑا خلیج فارس میں تعینات کر رکھا ہے بلکہ اپنے جدید بمبار طیارے بی 52 بھی علاقے میں بھیجے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ ہزار اضافی امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا بھی فیصلہ ہو چکا ہے۔