ایران نے عالمی جوہری توانائی ادارے (آئی اے ای اے) کی اپنے جوہری پروگرام تک رسائی محدود کر دی ہے تاہم حکام اب بھی آئندہ تین ماہ تک نگرانی کر سکتے ہیں۔
اشتہار
عالمی جوہری توانائی کے ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گراسی نے اتوار 21 فروری کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کار اب بھی ایرانی جوہری پروگرام کی نگرانی کر سکیں گے تاہم ان کی رسائی محدود نوعیت کی ہوگی۔ وہ سینیئر ایرانی حکام سے بات چیت کے لیے تہران کے دورے پر تھے۔
ایران نے گزشتہ برس دسمبر میں ایک قانون منظور کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر 2015 کے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے یورپی ممالک نے 21 فروری 2021 تک اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا تو اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رسائی پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ اس قانون پر عمل درآمدمنگل 22 فروری سے شروع ہو رہا ہے۔
یہ جوہری معاہدہ 'مشترکہ جامع لائحہ عمل (جے سی پی او اے) کے نام سے معروف ہے۔ ایران کو امید ہے کہ وہ دباؤ ڈال کر امریکا کو بھی پابندیاں ختم کرنے پر آمادہ کر لے گا اور اس معاہدے میں امریکا دوبارہ شامل ہوجائے گا۔
ایران اور معائنہ کاروں کے مابین اتفاق کس پر ہوا ہے؟
آئی اے ای اے کے سربراہ رفائل گراسی نے تہران میں حکام سے ہنگامی بات چیت کے بعد واپسی پر کہا کہ ادارے اور ایران نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک ''تکنیکی حل'' تلاش کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے تحت آئی اے ای اے کے حکام ایران میں، ''نگرانی اور تصدیق کی ضروری سطح کو برقرار رکھیں گے۔''
ان کا کہنا تھا کہ ایران میں معائنہ کاروں کی تعداد پہلے ہی جیسی برقرار رہے گی تاہم جو سرگرمیاں وہ انجام دیتے ہیں ان کی نوعیت بدل جائے گی۔ لیکن انہوں نے اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ آخر اب معائنہ کاروں کا دائرہ اختیار کیا ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نگرانی کا عمل اب بھی اطمینان بخش انداز میں جاری رہے گا۔ یہ حل آئندہ تین ماہ کے لیے ہے۔
تہران میں گراسی سے ملاقات سے عین قبل ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے سرکاری ٹی وی سے بات چیت میں البتہ یہ بات کہی تھی کہ جوہری تنصیبات میں نصب ایرانی کیمروں کے فوٹیج تک معائنہ کاروں کو اب رسائی نہیں دی جائے گی۔
اشتہار
کیا یہ حل کامیاب ہوگا؟
آئی اے ای اے کا صدر دفتر ویانا میں واقع ہے جہاں ایئر پورٹ پہنچنے پر رفائل گراسی نے کہا، ''آئی اے ای اے کو غیر مستحکم صورت حال کو مستحکم کرنے کی امید رہی ہے۔ اس نے اس صورتحال کو بچا لیا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایک مستحکم اور پائیدار صورت حال کے لیے سیاسی گفت و شنید کی ضرورت ہوگی جو میرے دائر اختیار کا معاملہ نہیں ہے۔''
تاہم ان کا کہنا تھا کہ محدود پیمانے کی نگرانی بھی اس صورت حال سے بہت بہتر ہے جب ادارہ اس سے پوری طرح محروم ہوتا۔
ایران عراق جنگ، چالیس برس بیت گئے
ایران اور عراق کے مابین ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ کا خونریز ترین تنازعہ تھا۔ آٹھ سالہ اس طویل جنگ میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس نے خطے میں فرقہ ورانہ تقسیم میں بھی اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
علاقائی تنازعہ
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
تصویر: defapress
الجزائر معاہدہ
اس جنگ سے پانچ برس قبل سن 1975 میں اس وقت کے نائب صدر صدام حسین اور ایران کے شاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم بغداد حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے آبنائے ہرمز میں واقع تین جزائر پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ ان جزائر پر ایران اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی اپنا حق جتاتے تھے۔
تصویر: Gemeinfrei
اہم آبی ذریعہ
سترہ ستمبر سن 1980 کو عراقی حکومت نے الجزائر معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سو کلو میٹر طویل اہم ایشائی دریا شط العرب پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ گلف کا یہ اہم دریا دجلہ اور فرات سے مل کر بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani
شہروں اور بندگارہوں پر بمباری
عراقی صدر صدام حسین نے ایرانی ہوائی اڈوں پر بمباری کی، جن میں تہران کا ایئر پورٹ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی عراقی فورسز نے ایرانی فوجی تنصیبات اور آئل ریفائنریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں عراقی فورسز کو مزاحمت نہیں ملی اور اس نے قصر شیریں اور مہران سمیت ایران کی جنوب مشرقی پورٹ خرمشھر پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شط العرب سمندر سے جا ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
مشترکہ دشمن
اس جنگ میں گلف ممالک نے عراق کا ساتھ دیا۔ بالخصوص سعودی عرب اور کویت کو ڈر تھا کہ ایرانی اسلامی انقلاب مشرق وسطیٰ کے تمام شیعہ اکثریتی علاقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک بھی عراق کے ساتھ تھے اور انہوں نے صدام حسین کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone
ایران فورسز کی جوابی کارروائی
ایرانی فورسز کی طرف سے جوابی حملہ عراق کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اس کارروائی میں ایرانی فوج نے خرمشھر پورٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ تب عراق نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ تاہم ایران نے جنگ بندی تسلیم نہ کی اور عراقی شہروں پر بمباری شروع کر دی۔ اپریل سن 1984 دونوں ممالک کی افواج نے شہروں پر حملے کیے۔ یوں دونوں ممالک کے تیس شہر شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
اس جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ سن 1984میں ایران نے یہ الزام عائد کیا، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ سن 1988 میں بھی عراقی فورسز نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جون 1987 میں عراق نے ایرانی شہر سردشت میں زہریلی گیس سے حملہ کیا جبکہ مارچ 1988 میں کرد علاقے میں واقع حلبجة میں عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
تصویر: Fred Ernst/AP/picture-alliance
فائر بندی
اٹھارہ جولائی 1988 کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کردہ فائربندی کی تجویز قبول کی۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی درست تعداد کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے چھ لاکھ افراد اس تنازعے کے سبب ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک نے بیس اگست سن 1988 کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Sassan Moayedi
نیا باب
سن 2003 میں جب امریکی فوج نے عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ تب سے ایران اور عراق کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و سماجی معاملات میں بھی باہمی تعلقات بہتر بنا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Mohammed
9 تصاویر1 | 9
ایران اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو روکنا کیوں چاہتا ہے؟
صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے سن 2018 میں جوہری معاہدے پر سخت رویہ اپناتے ہوئے اس سے امریکا کو الگ کر لیا تھا اور ایران پر عائد پہلے کی سخت پابندیوں کو بحال کر دیا تھا۔ اس سے ایرانی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
اس کے رد عمل میں ایران نے بھی جوہری معاہدے کی خلاف وزری کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کی شرح بڑھا دی۔ ایران چاہتا ہے کہ معاہدے کے تمام فریق اپنے وعدوں کو پورا کریں تو وہ بھی اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکا کے نئے صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں اپنے یورپیئن اتحادیوں سے کہا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے باز رکھنے کے لیے سب کو متحد ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے جوہری معاہدے میں دوباوہ واپس ہونے کا بھی عندیہ دیا تھا۔