ایران وشام کا جوہری معاملہ IAEA کے اجلاس میں سرفہرست
1 دسمبر 2010بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجسنی (IAEA)کے ویانا میں قائم ہیڈکوارٹرز میں جمعرات اور جمعہ کو ایجنسی کی رواں برس کی اختتامی بورڈ میٹنگ ہورہی ہے۔ ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے عالمی ادارے کی جاری تحقیقات کے حوالے سے نئی رپورٹس پر غوروخوض اس اجلاس کا اہم موضوع رہے گا۔
یہ اجلاس اس لیے بھی اہم قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اس سے محض تین روز بعد یعنی چھ اور سات دسمبر کو جنیوا میں تہران اور چھ اہم ممالک کے درمیان کافی عرصے سے منجمد مذاکرات کا دوبارہ سے آغاز ہورہا ہے۔ ان چھ ممالک میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکارن امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس اور روس کے علاوہ جرمنی شامل ہے۔ یہ مذاکرات دراصل گزشتہ 14 ماہ کے دوران پہلے اعلی سطحی بات چیت ہے۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی گزشتہ آٹھ برس سے یہ پتہ لگانے میں مصروف ہے کہ ایرانی ایٹمی پروگرام کا مقصد پرامن توانائی کا حصول ہے جیسا کہ خود ایران کا دعویٰ ہے، یا پھر جوہری ہھتیاروں کا حصول جس کا کہ مغربی دنیا کو شبہ اور خوف ہے۔
آئی اے ای اے کے سربراہ یوکیا امانو نے گزشتہ ہفتے پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ایران سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیئم کی افزودگی میں پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہے۔
یورینیئم افزودگی سے انکار کی بنا پر ایران کو اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیوں کا سامنا ہے۔ تاہم ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے رواں ہفتے کے آغاز پر کہا تھا کہ یورینیئم افزودگی اور جوہری ایندھن کے حصول کے حق سے ایران کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔
بین الاقوامی توانائی ایجسنی کے جمعرات سے شروع ہونے والے 35 رکنی بورڈ آف گورنرز کے دوروزہ اجلاس میں ایران کے علاوہ شام کی مبینہ جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے ملنے والی تازہ رپورٹس پر بحث بھی متوقع ہے۔
دمشق حکومت پر اس بات کا الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ دیر الزور نامی صحرائی علاقے میں ایک خفیہ ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر میں مصروف تھا، جو کہ ستمبر 2007ء میں اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنا۔ بین الاقوامی ایٹمی ادارہ اس معاملے کی چھان بین 2008ء تک کرتا رہا۔ اس سلسلے میں پہلے ہی کہا جاچکا ہے کہ اسرائیلی نشانہ بننے والی عمارت میں ایک جوہری تنصیب کی خصوصیات موجود تھیں۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: عابد حسین