1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: پانی کی قلّت کے سبب گوناگوں مسائل سے دوچار

21 جون 2024

ایران میں خشک سالی کے سبب زمینیں دھنستی جا رہی ہیں، جس سے تہران اور سینکڑوں دیگر قصبوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

ملک کے مشرقی علاقے میں حامون جیسی متعدد جھیلیں پوری طرح خشک ہو گئی ہیں
ملک کے مشرقی علاقے میں حامون جیسی متعدد جھیلیں پوری طرح خشک ہو گئی ہیںتصویر: Mohammad Dehdast/dpa/picture alliance

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ دارالحکومت تہران اوراہم شہر اصفہان سمیت آٹھ سو سے زیادہ قصبوں اور گاؤں کو زمین کے دھنسنے کا خطرہ لاحق ہے۔ تہران کی زمین ہر سال 22 سینٹی میٹر (تقریباً نو انچ) کے حساب سے دھنس رہی ہے جو کہ عام حالات کے مقابلے سات گنا زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ملک میں پانی کی شدید قلّت ہے۔

کینیڈا میں مقیم ہائیڈرولک ڈھانچوں اور ڈیم کی تعمیرات کے ماہر روزبہہ اسکندری کا کہنا ہے،"یہ ایک سنگین بحران ہے، جو کم از کم نصف ایرانی معاشرے کو متاثر کررہا ہے۔"

ایران میں پانی غائب، لوگ سراپا احتجاج، رپورٹ

موسمیاتی تبدیلی سے کمزور ملکوں میں تصادم میں اضافے کا خدشہ

اسکندری طویل عرصے سے ایران میں پانی کی قلّت کے نتائج سے خبر دار کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"پانی کے غیر پائیدار استعمال کے نتیجے میں زمین کا دھنسنا پورے ملک کے انفرااسٹرکچر بشمول پائپ لائنز، بجلی کی لائنوں اور ریلوے لائنوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔"

اسکندری کا کہنا تھا،"اس صورت حال کا طویل مدتی حل تلاش کرنے اور درست طریقے سے نافذ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ ایرانی حکام صرف اس بات پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ کافی بارشیں ہوں گی جس سے آبی ذخائر بھر جائیں گے اور مسئلہ حل ہو جائے گا۔"

زمین دھنسنے سے اصفہان کی اس تاریخی عمارت میں دراڑیں پڑ گئی ہیںتصویر: Fatemeh Bahrami/Anadolu/picture-alliance

بہت کم اور بہت زیادہ بارش

ایران میں درحقیقت حالیہ مہینوں میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ بارشیں ہوئی ہیں لیکن جو چیز نعمت ثابت ہو سکتی تھی وہ زحمت میں تبدیل ہو گئی۔ شدید بارشوں کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں سیلاب آگیا۔ بالخصوص غریب صوبے سیستان اور بلوچستان، جن کی سرحدیں افغانستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، بارش سے بری طرح متاثر ہوئے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایران کو بھی شدید موسم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات طویل مدت تک خشک سالی رہتی ہے اور بعض اوقات بہت زیادہ بارش ہوتی ہے۔

اسکندری کا کہنا تھا،"مٹی بہت خشک ہے اور جلد پانی جذب نہیں کرسکتی۔ اس لیے جب اچانک موسلادھار بارش ہوتی ہے تو یہ سیلاب کا سبب بن جاتی ہے۔ لیکن ملک ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔"

ہر پانچ میں سے چار انسان گلوبل وارمنگ کے خلاف اقدامات کے حامی

اسکندری کے مطابق"حکومت کے منصوبے حالات کو مزید خراب کررہے ہیں۔"  انہوں نے پانی کے بہاؤ کو موڑنے یا ڈیمز بنانے جیسے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا،"یہ ایسے اقدامات ہیں جو پائیدار اور حقیقی حل کے بجائے مختصر مدتی حل سمجھے جاتے ہیں۔"  وہ کہتے ہیں، "ان اقدامات سے پانی کے متعلق علاقائی تنازعات میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے اور معاشرتی امن اور ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔"

دیگر ملکوں کی طرح ایران میں بھی سیلاب یا خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثر غریب طبقہ ہی ہوتا ہےتصویر: Pouria Jahan/FARS

محدود وسائل اور بدانتظامی

سعید مدنی جسے ایرانی ماہر عمرانیات برسوں سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور ایران کی معیشت اور معاشرے پر پڑنے والے مضمرات کے بارے میں خبر دار کرتے رہے ہیں۔

مدنی، جو مئی 2022 سے قید میں ہیں، نے اس بارے میں تحقیقات کی ہیں کہ کس طرح خشک سالی اورپانی کی قلت نے ایران کے جنوب میں مظاہروں کو ہوا دی۔ ان کی کتابیں اور مضامین پانی کی قلّت کی وجہ سے ایرانی معاشرے میں پیدا ہونے والی گہری خلیج سے خبردار کرتے ہیں۔

ماہر ماحولیات منصور سہرابی، جو سنہ 2015 سے جرمنی میں مقیم ہیں، نے کہا کہ ایران برسوں سے پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔

سہرابی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"ایران کے پاس اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے درکار وسائل کی کمی ہے۔ ملک کی آبادی پچھلے 40 سالوں میں 37 ملین سے بڑھ کر 83 ملین تک پہنچ گئی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا،"زراعت میں پانی کے غیر پائیدار کھپت کی وجہ سے ہم ملک کے کئی حصوں میں زمینی پانی کے ذخائر کی ناقابل واپسی کمی اور نقصانات کا مشاہدہ کررہے ہیں۔"

سہرابی کے مطابق صنعت اور گھرانے دونوں ہی اس صورت حال کے لیے ذمہ دار ہیں۔ دونوں پانی کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور بدانتظامی میں شامل ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی مسئلے میں اضافہ ہو رہا ہے۔"

پچھلے تیس سالوں کے اندر ملک میں کم از کم 30 ملین افراد بہتر زندگی کی امید میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے ہیںتصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance

ماحولیاتی مہاجرین

ایرانی ماحولیاتی ایجنسی کی طرف سے مئی میں شائع ہونے والے اعدادو شمار کے مطابق صرف گزشتہ دو سالوں میں ایران کے اندر موسمیاتی مہاجرین کی تعداد میں آٹھ لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں اور بالخصوص وسطی اور جنوبی ایران میں پانی کی قلّت کی وجہ سے شمالی صوبو ں اور تہران کے اطراف کے شہروں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔

کم از کم 30 ملین افراد، یعنی ایران کی مجموعی 83 ملین آبادئی کا ایک تہائی سے زیادہ، بہتر زندگی کی امید میں پچھلے تیس سالوں کے اندر ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے ہیں۔ ایران کی کل زمین کا تین چوتھائی مکمل طورپر بنجر سمجھا جاتا ہے۔

جنگلات اور سبزہ سے مالامال بحیرہ کیسپیئن پر واقع ایران کے دو صوبے دولت مند پناہ گزینوں کی ترجیحی منزل ہیں لیکن پچھلے دس سالوں میں وہاں جائیداد کی قیمتوں میں دس گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اور نئے مکانات کی تعمیر کے لیے ساحل کے کنارے جنگلات کو کاٹا جارہا ہے  اور زرعی زمینوں کو ختم کیا جارہا ہے۔

سہرابی کا کہنا تھا،"صورت حال سنگین ہے کیونکہ ایران ماحولیات کے شعبے میں دائمی بدانتظامی کا شکار ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ صنعت اور زراعت کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا، "ایران کے پاس اس کے 80 ملین باشندوں کے لیے قابل واپسی وسائل نہیں ہیں۔ ایرانی حکام کو اب فوری اقدامات کرنے چاہئیں اور ایسے ممالک سے تعمیری طور پر تعاون حاصل کرنا چاہئے جو پانی کے کم وسائل کے انتظام میں زیادہ مہارت، علم اور تجربہ رکھتے ہیں، بصورت دیگر ملک کے کچھ حصے ناقابل رہائش ہو جائیں گے۔"

ج ا/ ص ز (شبنم وان ہیئن)

اصل مضمون جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں