1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ ممکن ہے ؟

وولف ویلڈے / امتیاز احمد16 اکتوبر 2013

ماضی کی نسبت اس وقت ایرانی جوہری پروگرام کے تنازعے کے حل کے امکانات بہت روشن نظر آ رہے ہیں لیکن مذاکرات میں شریک ہر کوئی ایران پر عائد پابندیاں ہٹانے کے حق میں نظر نہیں آتا۔

تصویر: picture-alliance/dpa

لندن میں اورینٹل اور افریقی علوم کے اسکول سے منسلک علی فتح اللہ نژاد کہتے ہیں، ’’ گزشتہ دس برسوں کے دوران ایران کی طرف سے مفاہمتی عمل کے لیے کبھی بھی اتنا جذبہ دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔‘‘

ایرانی حکومت نو منتخب صدر روحانی کی زیر قیادت یہ مسئلہ جلد از جلد حل کرنا چاہتی ہے۔ فتح اللہ نژاد کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ اس کے جواب میں مغربی سوچ میں بھی تبدیلی آ رہی ہے اور ایران کے پر امن جوہری پروگرام کے حق کو تسلیم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔‘‘

مغرب ایران کی جوہری تنصیبات میں خاص طور پر یورینیم کی افزودگی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لیکن ایران کے لیے یورینیم کی افزودگی توانائی میں خود انحصاری کا ایک لازمی جزو ہے۔ حالیہ جامع مذاکرات سے پہلے ایران کی جانب سے دو مطالبے کیے گئے تھے۔ ایک یہ کہ اس پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے اور دوسرا پرامن جوہری توانائی کے استعمال پر ایرانی حق کو تسلیم کیا جائے۔ ایران کے سابق جوہری مذاکرات کار حسین موسوی کے مطابق اس کے بدلے میں ایران اپنے جوہری پروگرام کو شفاف بنانے اور یہ گارنٹی دینے کو تیار ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو کبھی بھی فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔

مغربی ریاستوں کے نقطہ نظر سے بھی ایران مذاکراتی ٹرین پر چڑھ چکا ہے اور جنیوا میں مذاکرات اس کا پہلا امتحان ہے۔ یہ دیکھا جائے گا کہ آیا گزشتہ ہفتے بھیجے جانے والے مثبت اشارے حقیت کا روپ دھارتے ہیں یا نہیںتصویر: AFP/Getty Images

مشکل فیصلہ

مغربی ریاستوں کے نقطہ نظر سے بھی ایران مذاکراتی ٹرین پر چڑھ چکا ہے اور جنیوا میں مذاکرات اس کا پہلا امتحان ہے۔ یہ دیکھا جائے گا کہ آیا گزشتہ ہفتے بھیجے جانے والے مثبت اشارے حقیت کا روپ دھارتے ہیں یا نہیں۔ گزشتہ روز مذاکرات کے پہلے دن ہی جنیوا میں ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے سب کو یہ کہ کر حیران کر دیا تھا کہ وہ تین مرحلوں میں ایرانی مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس نئے ایرانی پلان کی تفصیلات تو سامنے نہیں آئی ہیں لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران ایک سال کے اندر اندر کسی حل تک پہنچنا چاہتا ہے۔

جرمن دارالحکومت برلن میں بین الاقوامی اور سلامتی کے امور کے انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ اشٹیفن مائر کہتے ہیں کہ ایرانی صدر کو اپنے ملک میں شدید دباؤ کا سامنا ہے اور صدر روحانی جلد از جلد نتائج سامنے لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی کامیابیوں کا اظہار کر سکیں۔

ایٹمی جنگ کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم سے وابستہ یینز پیٹر اشٹیفن کہتے ہیں، ’’ مغرب کی طرف سے کی جانے والی پیشکش فیصلہ کن ہو گی اور اس میں پابندیاں یقینی طور پر ایک اہم کردار ادا کریں گی۔‘‘ فتح اللہ نژاد کے مطابق مغرب کو صدر روحانی کے پلان کی حمایت میں عائد پابندیوں میں نرمی کی پیشکش کرنی چاہیے۔

ایران کے دو مطالبوں میں سے یہی مطالبہ مشکل سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اشٹیفن مائر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے پابندیوں میں کمی کا اعلان امریکی صدر باراک اوباما کو کرنا ہو گا اور اس مقصد کے لیے انہیں ایوان نمائندگان میں اکثریتی ری پبلیکنز سے اجازت لینا ہو گی۔ فتح اللہ نژاد کے مطابق سلامتی کونسل کے دو مستقل اراکین چین اور روس ایرانی پابندیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور فوری مفاہمت میں ان کی بھی کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔

تیل کی پیداوار کا بحران

فتح اللہ نژاد کہتے ہیں کہ پابندیوں کے نتیجے میں چین ایران کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر بنا ہے۔ دوسرا روس یورپ کو توانائی (گیس ) فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور نہیں چاہتا کہ ایران اس کے مقابلے میں آئے۔ پابندیوں کے خاتمے کا مطلب یہ ہوگا کہ ایران گیس اور تیل کی یورپی منڈیوں میں روس کے مدمقابل آ سکتا ہے۔ فتح اللہ نژاد کے مطابق فی الحال عالمی منڈیوں تک ایرانی تیل کا راستہ مشکلات سے دوچار نظر آتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں