1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران پر لگی پابندیوں کی خلاف ورزی

کشور مصطفیٰ24 جولائی 2013

جرمنی کے مختلف علاقوں میں چھاپوں کے نتیجے میں چار افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان پر ایران کے خلاف لگی پابندیوں کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ غالباً انہوں نے غیر قانونی طور پر ایران کو جوہری ٹیکنالوجی برآمد کی ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

کیانزاد کا، غلام علی کا، حامد خان اور روڈولف ایم کو اس الزام کے تحت ہیمبرگ کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔

دنیا کے بہت سے ممالک کو جرمنی میں تیار شدہ والوز کی برآمد کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہی ہے۔ تاہم ایران کو اس کی برآمد پر پابندی عائد ہے۔ کیانزاد کا، غلام علی کا، حامد خان اور روڈولف ایم پر الزام ہے کہ انہوں نے جرمنی سے والوز ایران کو برآمد کرنے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ نیز بھارت سے والوز کی ایران ترسیل میں بھی مدد کی ہے۔ ہیمبرگ کی عدالت کے مطابق ان افراد نے جوہری تنصیب کی تعمیر کے لیے نہایت ضروری ان والوز کو بھاری پانی کے ری ایکٹر کی تعمیر کرنے والی ایک کمپنی تک پہنچانے کے غیر قانونی عمل میں معاونت کی ہے۔ یہ ری ایکٹر ایران کے صوبے ’مرکزی‘ کے ایک اہم شہر ’اراک‘ میں قائم ہے۔ یہ ری ایکٹر جوہری ہتھیار سازی کے حامل پلوٹونیم کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اراک میں قائم بھاری پانی کا ری ایکٹرتصویر: Getty Images/AFP/Atta Kenare

جرمنی کے 90 کسٹم افسروں نے مسلح پولیس کی مدد سے مذکورہ چار مشتبہ افراد کے گھروں اور دفتروں پر چھاپے مارے۔ یہ آپریشن شہر ہیمبرگ، اوُلڈنبرگ اور وائمر میں کیا گیا۔ یہ گزشتہ بُدھ سے حراست میں ہیں۔ ان میں سے تین جرمن شہری ہیں جبکہ چوتھے کے پاس ایران اور جرمنی کی دُہری شہریت ہے۔

جرمن حکام کو شبہ ہے کہ 2010 ء اور 2011 ء میں ان مشتبہ افراد نے ہیوی ری ایکٹر کی تعمیر کے لیے اسپیشل والوز کو ایران پر لگی پابندیوں کے باوجود وہاں تک پہنچانے میں فعال کردار ادا کیا تھا۔

جامع پابندیاں

ایران کے ساتھ تجارت پر جتنی سخت شرائط عائد ہیں، شاید ہی کسی دوسرے ملک کے ساتھ ایسا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سی اقوام کو یہ تشویش لاحق ہے کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود کسی بھی وقت ایٹمی ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔

جرمنی میں ایکسپورٹ امپورٹ پر سخت کنٹرول ہےتصویر: picture-alliance/dpa

امریکا اور یورپی یونین حال ہی میں تہران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر چُکے ہیں، خاص طور سے ایران کے بینکوں اور توانائی کے شعبے پر۔ ایران پر پہلے سے یورپی یونین کو تیل برآمد کرنے کی تو پابندی لگی ہی ہوئی تھی، 2012 ء کے خزاں میں وہاں سے قدرتی گیس کی برآمدات پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایرانی بینکوں اور یورپی بینکوں کے مابین رقوم کی ادائیگی کے تمام معاملات یا لین دین پر بھی ممانعت لگا دی گئی۔ مجموعی طور پر ایسی تمام ٹیکنالوجی، خدمات یا امداد، جو ایرانی جوہری پروگرام کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہو، پر قدغن لگی ہوئی ہے۔

ان پابندیوں کے باوجود جرمنی پہلے کی طرح اب بھی ایران کا سب سے بڑا مغربی تجارتی پارٹنر ہے اور چین، متحدہ عرب امارات، بھارت اور جنوبی کوریا کے ساتھ ساتھ ساتھ جرمنی کا شمار بھی ایران کے اہم ترین تجارتی ساتھی ممالک میں ہوتا ہے۔ 2012 ء میں جرمن کمپنیوں نے ایران کو ڈھائی ارب یورو مالیت کی اشیاء برآمد کیں۔

مناسب کنٹرول

ایران کو کون کون سی مصنوعات برآمد کی جا سکتی ہیں، اس بارے میں انفرادی کیسز کا فیصلہ کرنا ایک مشکل عمل ہے کیونکہ چند اشیاء سول مقاصد کے ساتھ ساتھ عسکری مقاصد کے لیے بھی استعمال میں لائی جا سکتی ہیں۔ دانتوں کے سوراخ کو بھرنے کے لیے استعمال میں لائے جانے والے دھاتی مرکب تک کو ایران نہیں بھیجا جا سکتا۔ یہ کہنا ہے، ایران جرمن ایوان صنعت و تجارت کے مینیجنگ ڈائریکٹر میشائل ٹوکُس کا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ غیر قانونی تجارت کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کے لیے جرمن پاسپورٹ کے حامل ایجنٹوں کی مدد لی جائے، جو جرمن قوانین کے تحت کوئی کمپنی قائم کر سکتے ہیں۔ اس طرح ایران کے پاسداران انقلاب نے ایک کمپنی تشکیل دے رکھی ہے، جس کا نام اس طرح سے تبدیل کر کے رکھا گیا ہے کہ ایجنٹ کا صحیح نام پتہ نہ لگ سکے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں