ایران کا جوہری پروگرام فوری طور پر خطرہ نہیں، باراک اوباما
7 مارچ 2012![](https://static.dw.com/image/15791621_800.webp)
امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے یہ تازہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے اعلان کیا کہ امریکہ اور جرمنی سمیت عالمی طاقتیں ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر مذاکرات کا نیا دور شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام پر یہ مذاکراتی عمل گزشتہ ایک برس سے تعطل کا شکار ہے۔
اس تازہ پیشرفت سے ایک روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ ان کی حکومت ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے مبینہ عزائم کو روکنے کے لیے سفارت کاری کو زیادہ وقت نہیں دے سکتی ہے۔ تاہم اوباما نے کہا کہ ایران کے ساتھ اس حوالے سے سفارت کاری کی بدولت مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے خبردار کیا ہے کہ امریکا یہ برداشت نہیں کرے گا کہ ایران ایٹم بم بنائے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور سے معلوم ہو جائے گا کہ آیا ایران حکومت اس تنازعے کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے یا نہیں۔ باراک اوباما کہہ چکے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر ایران کی جوہری تنصیبات پر عسکری کارروائی کی جاسکتی ہے۔
امریکی صدر نے ری پبلکن صدراتی امیدواری کی دوڑ میں شامل مٹ رومنی کے اس بیان کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں رومنی نے ایران پر حملے کی بات کی تھی۔ اوباما نے کہا کہ یہ کوئی کھیل نہیں ہے اور وہ ان معاملات پر اپنی سیاست نہیں چمکانا چاہتے۔
اسرائیل اور مغربی ممالک کو خدشات لاحق ہیں کہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے دراصل ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے تاہم تہران حکومت اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔ ناقدین کے بقول ایران پر عالمی پابندیوں کے بعد اس کے مؤقف میں لچک پیدا ہوئی ہے اور اسی لیے وہ اپنے متنازعہ جوہری پروگرام پر مذاکرات کے لیے تیار ہوا ہے۔
ایرانی جوہری پروگرام کے اعلیٰ مذاکرت کار سعید جلیلی نے یورپی یونین کو ایک خط ارسال کیا تھا، جس میں مذاکرات کی بحالی کے لیے کہا گیا تھا۔ اس کے جواب میں گزشتہ روز یورپی یونین نے تعطل کے شکار ان مذاکرات کو بحال کرنے پر اتفاق ظاہر کیا۔ تاہم ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا ہے کہ یہ مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شامل شمس