’ایران کا شام میں بڑھتا کردار مشرق وسطیٰ کے لیے خطرناک ہے‘
عابد حسین
23 اگست 2017
اسرائیل کے وزیراعظم نے آج روسی صدر پوٹن کے ساتھ بحیرہ اسود کے کنارے پر واقع شہر سوچی میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں نیتن یاہو نے پوٹن پر واضح کیا کہ شام کے اندر بڑھتا ایرانی کردار مشرقِ وسطیٰ اور دنیا کے لیے خطرناک ہے۔
اشتہار
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے روسی صدر کو بتایا کہ عالمی برادری کی مشترکہ حکمت عملی اور کوششوں سے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا خاتمہ تو کیا جا رہا ہے لیکن اُس کی جگہ پر اب ایران نے نمودار ہونا شروع کر دیا ہے، جو مشرق وسطیٰ کے علاوہ عالمی امن کے لیے بھی خطرے کا سبب بن سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایرانی اثر و رسوخ واضح طور پر یمن اور لبنان میں دیکھا جا سکتا ہے۔
نیتن یاہو نے بحیرہ اسود کے کنارے پر واقع روس کے اہم بندرگاہی و سیاحتی شہر سوچی میں صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ملاقات کے دوران ایران سے متعلق اپنے خدشات کا بھرپور اظہار کیا۔ نیتن یاہو نے ان خدشات کے اظہار میں یہ بھی کہا کہ اس بات کو ایک لمحے کے لیے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایران کی جانب سے اسرائیل کو تباہ و برباد کیے جانے کی دھمکیاں روزانہ کی بنیاد پر دی جاتی ہیں اور یہ کسی بھی طور پر تعمیری و مثبت عمل نہیں ہے۔ نیتن یاہو کے بقول ایران پہلے ہی عراق کو اپنی نگرانی میں لے چکا ہے۔
روسی صدر نے اس ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں کے سامنے اسرائیلی وزیراعظم کے ایران کے حوالے سے بیان کیے گئے خدشات و احساسات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ یہ امر اہم ہے کہ ایران مسلسل اس کی تردید کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ لبنان کی حزب اللہ کو بھی روسی مدد ایران کے توسط سے حاصل ہے۔
ماسکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُس کی فوجی قوت کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران یا حزب اللہ کسی بھی طور پر اسرائیل کے خلاف نیا جنگی محاذ نہیں کھولیں گے۔ شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت روس اور ایران کھل کر کرتے ہیں۔
ایران میں یہودیوں کی مختصر تاریخ
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہ بابل نبوکدنضر (بخت نصر) نے 598 قبل مسیح میں یروشلم فتح کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ یہودی مذہب کے پیروکار ہجرت کر کے ایرانی سرزمین پر آباد ہوئے تھے۔
تصویر: gemeinfrei
539 قبل مسیح میں سائرس نے شاہ بابل کو شکست دی جس کے بعد بابل میں قید یہودی آزاد ہوئے، انہیں وطن واپس جانے کی بھی اجازت ملی اور سائرس نے انہیں اپنی بادشاہت یعنی ایرانی سلطنت میں آزادانہ طور پر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
سلطنت ایران کے بادشاہ سائرس اعظم کو یہودیوں کی مقدس کتاب میں بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں سائرس کا تذکرہ موجود ہے۔
تصویر: gemeinfrei
موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی گئی اور ہزارہا یہودی اسرائیل اور دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر گئے۔ ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس ملک میں آباد یہودیوں کی موجودہ تعداد قریب دس ہزار بنتی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ایران میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تاریخ کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ یہ تصویر قریب ایک صدی قبل ایران میں بسنے والے ایک یہودی جوڑے کی شادی کے موقع پر لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
قریب ایک سو سال قبل ایران کے ایک یہودی خاندان کے مردوں کی چائے پیتے ہوئے لی گئی ایک تصویر
تصویر: gemeinfrei
تہران کے رہنے والے ایک یہودی خاندان کی یہ تصویر بھی ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
یہ تصویر تہران میں یہودیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی ہے۔ ایرانی دارالحکومت میں یہودی عبادت گاہوں کی مجموعی تعداد بیس بنتی ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
دور حاضر کے ایران میں آباد یہودی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یہودیت کے آرتھوڈوکس فرقے سے ہے۔