ایران کو اپنا جوہری توانائی پلانٹ کیوں بند کرنا پڑا؟
21 جون 2021
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ بو شہر کا جوہری پاور پلانٹ کس وجہ سے بند کیا گیا تاہم بعض حکام کے مطابق غالب امکان اس بات کا ہے کہ مرمت کے دوران بجلی کا مسئلہ پیدا ہو جانے کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔
اشتہار
ایران کے سرکاری ٹی وی نے 20 جون اتوار کے روز خبر دی کہ ملک کے واحد جوہری توانائی کے پلانٹ کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب ایران نے ہنگامی بنیادوں پر بو شہر نیو کلیئر پاور پلانٹ کو بند کرنے کی بات کہی ہو۔
حکام کا کیا کہنا ہے؟
ایران میں توانائی کی معروف کمپنی توانیر سے وابستہ ایک سینیئر افسر نے ایک سرکاری ٹی چینل سے بات چیت میں کہا کہ جوہری پاور پلانٹ سنیچر کے روز بند کیا گیا تھا اور آئندہ تین سے چار روز تک یہ مزید بند رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی عدم فراہم کی وجہ سے یہ پاور پلانٹ بند ہوا ہو گا۔ تاہم انہوں نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں پیش کی کہ اس جوہری توانائی کی تنصیب میں کس نوعیت کی تکنیکی مرمت کا کام جاری تھی اور آخر اس کے بند ہوجانے کی اصل وجہ کیا ہو سکتی ہے۔
پلانٹ کے بارے میں ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟
یہ جوہری توانائی پلانٹ ایران کے جنوبی ساحلی شہر بو شہر میں واقع ہے جس کی تعمیر کا کام سن 1970 میں شروع ہوا تھا۔ بعد میں روس کی مدد سے اس کی تعمیر مکمل ہوئی تھی اور سن 2011 میں اس نے کام کرنا شروع کیا۔
جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت، پلانٹ کو بجلی بنانے کے لیے استعمال میں آنے والا یورینیم روس میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت جو بھی یورینیم ایندھن استعمال ہوتا ہے اس کے فضلہ کو بھی روس کو واپس بھیجنے کی ذمہ داری ایران پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم
امریکی پابندیوں کی وجہ سے، ایران کو روس سے اس پلانٹ کے لیے دیگر ساز و سامان اور ٹیکنالوجی حاصل نہیں ہو پا رہی ہے۔
گزشتہ مارچ میں ملک کے جوہری سائنسدان محمد جعفری نے اس پلانٹ سے متعلق یہ کہتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا تھا کہ یہ کام کرنا بند کر سکتا ہے۔ یہ جوہری توانائی پلانٹ اقوام متحدہ کے جوہری نگراں آئی اے ای اے کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔