ایران کو شدید معاشی بحران اور عوامی بے چینی کا خطرہ
22 اکتوبر 2025
یہ پابندیاں ایران کے متنازع جوہری پروگرام اور بیلسٹک میزائل سرگرمیوں پر مذاکرات کی ناکامی کے بعد لگائی گئیں۔ دونوں فریقوں کا کہنا ہے کہ سفارتی حل اب بھی ممکن ہے، اگرچہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی معاہدے کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔
تین سینیئر ایرانی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تہران کا ماننا ہے کہ امریکہ، اس کے مغربی اتحادی اور اسرائیل پابندیوں کو سخت کر کے ایران میں بے چینی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ کے وجود کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔
اٹھائیس ستمبر کو اقوام متحدہ کی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے بعد تہران میں کئی اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوئے تاکہ معاشی تباہی کو روکا جا سکے، پابندیوں سے بچاؤ کے طریقے تلاش کیے جا سکیں اور عوامی غصے کو قابو میں رکھا جا سکے۔
عام ایرانی شہریوں اور مراعات یافتہ مذہبی وسکیورٹی اشرافیہ کے درمیان بڑھتی ہوئی معاشی خلیج، بدانتظامی، تیزی سے بڑھتی مہنگائی اور ریاستی کرپشن، جس کی رپورٹنگ خود سرکاری میڈیا بھی کر رہا ہے، عوامی ناراضگی کو ہوا دے رہے ہیں۔
ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا، ''حکومت جانتی ہے کہ احتجاج ناگزیر ہیں، یہ صرف وقت کی بات ہے... مسئلہ بڑھ رہا ہے جبکہ ہمارے اختیارات کم ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘
ایرانی قیادت "مزاحمتی معیشت" یعنی خود کفالت اور چین، روس اور کچھ علاقائی ممالک کے ساتھ قریبی تجارت کی حکمت عملی پر انحصار کر رہی ہے۔ ماسکو اور بیجنگ ایران کے پرامن جوہری توانائی کے حق کی حمایت کرتے ہیں اور جون میں ایران کے تین جوہری مقامات پر امریکی و اسرائیلی حملوں کی مذمت کر چکے ہیں۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ متبادل اقدامات 92 ملین کی آبادی والے ملک کو نئی معاشی دھچکے سے بچانے کے لیے ناکافی ہو سکتے ہیں۔
توانائی کے ماہر اور جارج میسن یونیورسٹی کے سینئر وزٹنگ فیلو، عمود شکری نے کہا، ''اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اثر شدید اور کئی پہلوؤں پر مشتمل ہوگا، جو ملک کی دیرینہ ساختی اور مالی کمزوریوں کو مزید گہرا کرے گا۔‘‘
انہوں نے کہا، ''حکومت معاشی استحکام برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ پابندیاں بینکاری نظام کو متاثر کر رہی ہیں، تجارت کو محدود کر رہی ہیں اور تیل کی برآمدات، جو ملک کی آمدن کا بنیادی ذریعہ ہیں، کو روک رہی ہیں، جس سے سماجی و معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے۔‘‘
مشکلات اور عوامی غصہ میں اضافہ
چند ہی ایرانی شہری ان مشکلات سے بچ سکے ہیں۔ مایوسی کا احساس پورے معاشرے میں پھیل رہا ہے، جو شہری پیشہ ور افراد، تاجروں اور دیہی کسانوں سب کو متاثر کر رہا ہے۔
تہران سے فون پر بات کرتے ہوئے 43 سالہ علی رضا نے کہا ''ہم پر اور کتنی دباؤ ڈالا جائے گا؟ کب تک؟ میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور میری تنخواہ صرف 34 لاکھ تومان (تقریباً 300 ڈالر) ماہانہ ہے۔‘‘
’’میری بیوی بے روزگار ہے۔ جس درآمد و برآمد کمپنی میں وہ کام کرتی تھی، وہ گزشتہ ماہ بند ہو گئی۔ صرف میری تنخواہ ہے اور دو بچوں کے ساتھ ہم کرایہ اور اسکول کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پا رہے۔ ہم کیا کریں؟‘‘
ایران کی مہنگائی کی سرکاری شرح تقریباً 40 فیصد ہے، اگرچہ کچھ اندازے 50 فیصد سے بھی تجاوز کرتے ہیں۔ ستمبر میں جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 10 بنیادی اشیاء،جن میں گوشت، چاول اور مرغی شامل ہیں، کی قیمتیں ایک سال میں 51 فیصد بڑھ گئیں۔ رہائش اور یوٹیلیٹی اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں۔ بیف اب 12 ڈالر فی کلو ہے، جو کئی خاندانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔
دوسرے ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ مذہبی اشرافیہ کو بڑھتی ہوئی عوامی پریشانیوں سے خدشہ ہے کہ 2017 سے وقفے وقفے سے ہونے والے احتجاجات دوبارہ بھڑک سکتے ہیں، خاص طور پر نچلے اور درمیانے طبقے کے ایرانیوں میں۔
شیراز شہر کی ایک فیکٹری ورکر، 32 سالہ سیما نے کہا، ''اب وہ کہتے ہیں کہ ہم نئی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن ہم پہلے ہی اپنے تین بچوں کے لیے گزارہ کرنے میں مشکل میں ہیں۔ قیمتیں روز بڑھتی ہیں اور ہم انہیں مہینے میں ایک بار بھی گوشت نہیں کھلا سکتے۔‘‘
بہت سے کاروباری افراد کو خدشہ ہے کہ اگر جوہری تنازع کا سفارتی حل نہ نکلا تو ایران مزید بین الاقوامی تنہائی اور اسرائیلی فضائی حملوں کا شکار ہو سکتا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین