1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: کیا مخالفین کی آواز انٹرنیٹ پر بھی دبا دی گئی؟

9 اکتوبر 2022

ہزارہا ایرانی حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ احتجاج کا یہ سلسلہ آن لائن بھی جاری ہے۔ حکومت مخالف بعض لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انسٹاگرام پر ان کی بعض پوسٹس ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں۔

Iran | Proteste nach dem Tod von Mahsa Amini
تصویر: EPA-EFE

جلی ہوئی گاڑیاں، سڑکوں پر جھڑپیں، خواتین اپنے ہیڈ اسکارف جلاتی ہوئیں، ایران میں ستمبر کے وسط سے مظاہروں کا یہ سلسلہ شروع ہوا ایک 22 سالہ کرد لڑکی مہسا امینی کی ایران کی اخلاقی پولیس کی زیر حراست موت کے بعد جسے درست طور پر سر نہ ڈھانپنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ مہسا امینی کو 13 ستمبر میں ایرانی دارالحکومت تہران میں گرفتار کیا گیا تھا اور تین دن بعد ایک ہسپتال میں اس کی موت واقع ہو گئی۔

ایران ہیومن رائٹس (IHR) کے مطابق ان مظاہروں کے دوران اکتوبر کے آغاز تک150 افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیںجبکہ سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

پولیس کی طرف سے انتہائی سختی سے نمٹنے کے باوجود مظاہروں کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ پولیس ظلم و تشدد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں، خاص طور پر انسٹاگرام پر، جو ایران میں بہت زیادہ صارفین استعمال کرتے ہیں۔

ایران میں یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ان آخری پلیٹ فارمز میں سے ایک تھا جو عوامی طور پر قابل رسائی تھا۔ ایرانی حکومت دیگر کئی پلیٹ فارمز پر پابندی بھی عائد کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ موبائل انٹرنیٹ کا سلسلہ بھی کئی بار مسلسل کئی کئی گھنٹوں کے لیے معطل کیا جا چکا ہے۔

کیا انسٹاگرام سنسر ہو رہا ہے؟

ایرانی حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ تک رسائی روکنے کے واقعات کے دوران کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خود اپنے طور پر بھی سنسر شپ میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن ایکٹیوسٹ، گروپوں اور میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ انسٹاگرام نے بعض ہیش ٹیگز، ویڈیوز اور پوسٹس ہٹا دیں۔

اپنی ایک ٹوئٹ میں ایرانی نژاد برطانوی اداکارہ اور ایکٹیوسٹ نازنین بنیادی نے سوال اٹھایا کہ فیس بُک کی مالک کمپنی میٹا نے، جو انسٹاگرام کی بھی مالک ہے، احتجاج سے متعلق اتنی زیادہ پوسٹس کیوں ہٹا دی ہیں۔

ایرانی نژاد امریکی صحافی سامان اربابی نے بھی میٹا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے حال ہی میں ایسی ویڈیوز ہٹا دی ہیں، جن میں مظاہرین ایرانی رہنما کے لیے موت کی تمنا کر رہے تھے۔

ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا کہ یہ کمپنی احتجاجی بینرز اور نعروں کی نسبت آمروں کے لیے زیادہ احترام رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ویڈیو جو 33 لاکھ بار دیکھی جا چکی تھی اسے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔

ایران سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے افراد کی طرف سے چلائے جانے والے ٹیلی وژن مانوٹو، اور ڈاکومنٹری نیٹ ورک 1500 تصویر نے بھی پوسٹس ڈیلیٹ کرنے کے بارے میں رپورٹ کیا ہے۔

بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں قائم فرائیے یونیورسٹی سے منسلک میڈیا اور کمیونیکیشن ریسرچر مارکوس میشائلسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے بھی اس چیز کا مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے۔ وہ اور ان کے ایک ایرانی ساتھی اس طرح کے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ایسی پوسٹس کو محفوظ کر رہے ہیں جنہیں ڈیلیٹ کیا جا رہا ہے، جبکہ اس طرح کا دوسرا مواد بدستور آن لائن موجود ہے۔

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے

01:05

This browser does not support the video element.

میشائلسن کے مطابق، ''اس بات کی وضاحت کرنا مشکل ہے کہ کیوں (میٹا کی) گائیڈ لائنز پر بہت سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ میرے پاس اس کی وضاحت تو نہیں ہے مگر صورتحال یہی ہے۔‘‘

کوئی پابندیاں نہیں، میٹا

ڈی ڈبلیو کی جانب سے ان الزامات کے بارے میں ردعمل جاننے کے لیے جب میٹا سے رابطہ کیا گیا تو اس کمپنی کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ''ہم آن لائن رسائی کے لوگوں کے حق پر بھرپور یقین رکھتے ہیں، ایران سمیت۔ ایرانی عوام اپنی قریبی لوگوں کے قریب رہنے کے لیے، معلومات کے حصول اور اہم واقعات پر روشنی ڈالنے کے لیے انسٹاگرام جیسی ایپس کا استعمال کرتے ہیں۔۔۔ اور ہمیں امید ہے کہ ایرانی حکام ان کی رسائی جلد بحال کر دیں گے۔اسی دوران ہماری ٹیمز صورتحال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں، اور صرف ایسے مواد کو ہٹانے پر توجہ رکھے ہوئے ہیں جو ہمارے ضوابط کے خلاف ہوں، ساتھ ہی ان ضوابط پر عمدرآمد میں کسی غلطی کو بھی جلد از جلد رفع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘

میٹا کی طرف سے جرمنی کے پبلک ریڈیو اسٹیشن BR کو بتایا گیا کہ مانوٹو ٹی وی پر لگائی گئی پابندیوں کا مقصد 'سپیم‘ کو روکنے کی کوشش تھی، جنہیں اب ہٹا دیا گیا ہے۔

یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع کیا گیا۔

اسٹیفانی ہوئپنر (ا ب ا/ع ب)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں