1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: بہائی خواتین پر ظلم، تشدد اور پھانسی

19 جون 2023

بہائی کمیونٹی ایران کی سب سے بڑی غیر مسلم مذہبی اقلیت ہے جسے انتہائی بہیمانہ سلوک کا سامنا ہے، یہ برادری اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

Iran l Baha'i-Friedhof in Teheran
تصویر: Pooyan Mokari /DW

1983ء  میں ایران نے 10 بہائی خواتین کو سرعام پھانسی دی۔ بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی نے برسی کے موقع پر ایک مہم شروع کی ہے اور ایران کی سب سے بڑی غیر مسلممذہبی اقلیت  پر جاری ظلم و ستم کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔

ایران کی مظلوم بہائی اقلیت پر ہونے والے سنگین ترین جرائم میں سے ایک 40 سال قبل جنوبی شہر شیراز میں پیش آیا تھا۔ 18 جون 1983ء  کو 17 سے 57 سال کی عمروں کی 10 خواتین کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ مزید برآں، جب وہ اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں انہیں یہ دیکھنے پر مجبور کیا گیا کہ ان کے ساتھی قیدیوں کو عوامی چوک میں ایک ایک  کر کے کس طرح پھانسی کے پھندے سے لٹکایا گیا۔ ان کا ''جرم‘‘ یہ تھا کہ یہ  بہائی عقیدے سے تعلق رکھتی تھیں اور اسے ترک کرنے سے انکار کر چکی تھیں۔ سب سے چھوٹی مونا محمود نژاد کی عمر 17 سال تھی۔ وہ  بہائی بچوں کو پڑھایا کرتی تھی، جنہیں اسکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔

پھانسی پر چڑھائی گئی خواتین کی لاشوں میں سے کسی ایک کی بھی لاش  کو ان کے اہل خانہ کے سپرد نہیں کیا گیا۔ انہیں ان کی مذہبی رسومات کے مطابق تدفین کی اجازت نہیں تھی۔ لواحقین کو اپنی قریبی خواتین کو ان کے آخری سفر کے وقت بھرپور طریقے سے الوداع کہنے سے محروم رکھا گیا۔ یہی حال ان چھ بہائی  مردوں کا بھی تھا جنہیں دو رات پہلے اسی چوک پر پھانسی دی گئی تھی، جن میں سے بعض ان خواتین کے رشتے دار تھے۔

بہائی خواتین کی جدو جہدتصویر: Baha'i Gemeinde in Deutschland

اعداد و شمار

1979 ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں بہائی کمیونٹی کے 200 سے زائد افراد کو پھانسی دی گئی۔ بین الاقوامی سطح پر اس بارے میں بہت شور بپا ہوا جس کے نتیجے میں پھانسیوں کو روک دیا گیا لیکن ظلم و ستم ابھی جاری ہے۔ جرمنی میں بہائی کمیونٹی کے انسانی حقوق کے افسر ژاشا نولٹینیس کا کہنا ہے کہ ایران میں بہائیوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ عالمی برادری ان کی صورت حال پر توجہ دے۔

پاکستان میں بہائی عقیدہ

03:05

This browser does not support the video element.

نولٹینیس نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،''وہ منظم ظلم و ستم کا شکار ہیں جو ان کی ترقی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ان کی جڑوں کو تباہ کرتا ہے اور انہیں تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کے مواقع سے  محروم رکھتا ہے۔ یہ سب دراصل ریاستی نظریے کے تحت کیا جاتا ہے۔ بہائی باشندوں کی مذہبی وابستگی کی وجہ سے ان کی گرفتاریوں اور سزاؤں کی لہریں بار بار آتی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایران میں سب سے بڑی غیر مسلم اقلیت کا وجود خطرے میں ہے۔ ان کے بقول،''اگر بین الاقوامی میڈیا نے اس بارے میں رپورٹنگ نہیں کی اور اگر دنیا بھر کی حکومتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بہائیوں کے ساتھ مساوی سلوک کا مطالبہ ایران کو بین الاقوامی قوانین کے تحت اس کی ذمہ داریوں کا پابند نہیں کیا تو اس اقلیت کا وجود مٹ جائے گا۔‘‘

ایران میں بہائیوں کا قبرستانتصویر: Pooyan Mokari /DW

بہائیوں کی قانونی حیثیت

تقریباً تین لاکھ ارکان پر مشتمل کمیونٹی برادری ایران کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہے۔ اس اسلامی جمہوریہ میں تاہم عیسائیوں، یہودیوں اور زرتشتوں کے برعکس، یہ ایک تسلیم شدہ مذہبی اقلیت کے طور پر ملکی آئین کے آرٹیکل 13  میں درج نہیں۔ 19 ویں صدی میں ایران کی سرزمین پر بہائی عقیدہ اُبھر کر سامنے آیا تھا۔ اس کا پس منظر شیعہ اسلام سے گرچہ ایک ایسے آزاد مذہب کے طور پر ملتا ہے جو صنفی مساوات کو فروغ دیتا ہے۔ اس کو ملک کے قدامت پسند علماء شروع سے ہے مسترد کرتے رہے ہیں اور یوں بہائی بھی شروع سے ہی ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں، لیکن اسلامی انقلاب کے بعد ان کے مصائب میں ڈرامائی طور پر شدت آئی۔

تختہ دار پر چڑھنے والی بہائی خواتینتصویر: Baha'i Gemeinde in Deutschland

بہائیوں کے لیے بڑھتی ہوئی ہمدردی

انسانی حقوق کی کارکن ژینوس فوروتان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بہائی برادری کے تئیں ایرانی معاشرے کی حساسیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جب ہم بہائیوں کے ظلم و ستم اور قید کے بارے میں رپورٹ کرتے ہیں، تو ہمیں مزید ایسے جملے سننے کو نہیں ملتے کہ ، 'شاید انہوں نے کچھ کیا ہو اور اسی لیے انہیں گرفتار کیا گیا‘۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا لوگوں کو بہتر طور پر آگاہی فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ #OurStoryIsOne جیسی مہمات یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ ہم سب ایک ہی مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘

ک م/ ع ت

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں