1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کی جانب سے برطانیہ اور فرانس کو تیل کی بندش، معائنہ کاروں کی تہران آمد

20 فروری 2012

ایران نے اپنی تیل کی برآمدات پر یورپی پابندیوں کے نفاذ سے قبل برطانیہ اور فرانس کو تیل کی فروخت روک دی ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم مذاکرات کی غرض سے تہران پہنچی ہے۔

تصویر: AP

ایران کی وزارت تیل نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران نے ان دونوں یورپی ملکوں کو تیل کی فروخت بالکل بند کر دی ہے۔ وزارت کی ویب سائیٹ پر اس کے ترجمان علی رضا نیک زاد کے شائع ہونے والے بیان میں کہا گیا، ’برطانوی اور فرانسیسی کمپنیوں کو خام تیل کی پیداوار روک دی گئی ہے، ہم اب اپنا تیل نئے خریداروں کو فروخت کریں گے‘۔

ایران کی جانب سے یہ تازہ قدم بظاہر خود پر عائد کی جانے والی مغربی پابندیوں کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔ اس کا ایک مقصد یہ ظاہر کرنا بھی ہو سکتا ہے کہ ایران کو مغربی پابندیوں کی قطعی پروا نہیں ہے۔

تاہم تیل کی بندش کا برطانیہ اور فرانس پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ان دونوں کا ایرانی تیل پر زیادہ دارومدار نہیں ہے۔

ایک نئی پیشرفت میں اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی ایک پانچ رکنی ٹیم تہران پہنچی ہے جہاں وہ ایرانی حکام کے ساتھ دو روزہ مذاکرات کرے گی۔ تاہم مغربی سفارت کاروں نے ان مذاکرات میں کسی اہم پیشرفت کے امکان کو پہلے ہی مسترد کر دیا ہے۔ ویانا میں ایک مغربی سفارت کار نے کہا، ’’مجھے ایران کی طرف سے با معنی تعاون مشکل دکھائی دیتا ہے۔‘‘

بین الاقوامی برادری کو شبہ ہے کہ ایران پر امن جوہری پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہےتصویر: AP

تاہم رواں ہفتے کے مذاکرات کا نتیجہ پھر بھی اہم خیال کیا جا رہا ہے اور اس سے ایران اور بین الاقوامی برادری کے درمیان تنازعے میں کمی آنے یا پھر مزید شدت پیدا ہونے کا اشارہ ملے گا۔

یورپی کمیشن نے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے خام تیل کی برآمدات روکنے کے فیصلے سے یورپی بلاک میں تیل کی کمی نہیں ہو گی کیونکہ اس کے پاس اتنا تیل ذخائر میں موجود ہے جو ایک سو بیس روز کی ضروریات کے لیے کافی ہو گا۔

تیل کی صنعت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یورپی ملکوں نے پابندیوں سے کئی ماہ پہلے ہی ایران سے تیل کی خریداری میں کمی کرنا شروع کر دی ہے۔ فرانس کی کمپنی ٹوٹل نے تو ایرانی تیل کی خریداری بالکل بند کر دی ہے تاہم قرض کے بحران میں پھنسے یونان کے اس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

ایران کی جانب سے جوہری افزودگی کو روکنے سے انکار کے معاملے نے بین الاقوامی برادری میں خدشات پیدا کر رکھے ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔

مغربی طاقتوں نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان مسترد نہیں کیا اور اسرائیل میں اس وقت یہ عوامی بحث چل رہی ہے کہ آیا ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنے کے لیے اس پر حملہ کرنا مناسب ہو گا۔

دریں اثناء، امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ایران پر حملے کی بات ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ یہ واضح نہیں ہے کہ تہران حکومت اپنی جوہری صلاحیتوں کو ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں ایرانی حکومت ’حقیقت پسندانہ ذہن‘ کی حامل ہے۔

مغرب میں تہران کے ساتھ نئے مذاکرات کے امکان پر کچھ مثبت امید کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تہران نے گزشتہ ہفتے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کو لکھے گئے ایک مراسلے میں ’نئے منصوبے پیش کرنے‘ کا وعدہ کیا تھا۔

ایران کے سرکاری ٹی وی نے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی کے بیان کے حوالے سے کہا تھا، ’ان مذاکرات کے ذریعے ہم ایران کے موجودہ جوہری مسئلے سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کر رہے ہیں جو دونوں فریقوں کے لیے کامیاب ثابت ہو۔‘

رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں