ایران کی قومی سلامتی کونسل نے خواتین کے لیے حجاب سے متعلق ایک نئے متنازعہ ملکی قانون کا نفاذ روک دیا ہے۔ اس متنازعہ ہیڈ اسکارف قانون پر عمل درآمد روک دیے جانے کا اعلان ملکی پارلیمان کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کیا۔
اس نئے لیکن متنازعہ قانون کے مطابق خواتین سر کے بال ڈھانپے بغیر اس طرح گھروں سے باہر نہیں نکل سکتیںتصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images
اشتہار
دارالحکومت تہران سے اتوار 25 مئی کے روز موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایرانی نیوز ویب سائٹ 'انتخاب‘ نے لکھا ہے کہ پارلیمانی اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا، ''قومی سلامتی کونسل نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ نئے حجاب (ہیڈ اسکارف) قانون پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔‘‘
'انتخاب‘ نے قالیباف کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ اس نئے قانون کو ایرانی پارلیمان ہی نے منظور کیا تھا، تاہم اب قومی سلامتی کونسل نے حکم دے دیا ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔
ایران کی قومی سلامتی کونسل کے فیصلے کو ملکی پارلیمان کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ قومی سلامتی کونسل ملک کی اعلیٰ ترین فیصلہ ساز اتھارٹی ہے اور ملکی آئین کی رو سے وہ پارلیمان اور ملکی حکومت دونوں کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں میں ترمیم کر سکتی ہے۔
گزشتہ برس اس نئے قانون کی منظوری کے بعد ایران میں وسیع تر عوامی مظاہرے شروع ہو گئے تھےتصویر: SalamPix/abaca/picture alliance
متنازعہ ہیڈ اسکارف قانون ہے کیا؟
قومی سلامتی کونسل نے ملک میں جس متنازعہ قانون پر عمل درآمد اب روک دیا ہے، وہ تہران میں قومی پارلیمان نے سخت گیر مذہبی سوچ کے حامل ارکان کی اکثریتی تائید سے گزشتہ برس منظور کیا تھا۔
اس قانون کے تحت ایسی تمام خواتین کو، جو عوامی مقامات پر اپنی موجودگی کے دوران اپنے سر کے بالوں کو ہیڈ اسکارف کے ساتھ نہ چھپائیں، انہیں بھاری جرمانے کیے جا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایسی خواتین کو ریاست کی طرف سے مہیا کی جانے والی خدمات سے بھی محروم کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ بار بار اس قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوں، تو انہیں سزائے قید بھی سنائی جا سکتی ہے۔ اس قانون کے تحت عوامی مقامات پر ہر خاتون کے سر کے بال لازمی طور پر ڈھکے ہوئے ہونا چاہییں۔ ایران میں حجاب کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے خلاف مہم کا آغاز
ایرانی پارلیمان کے اسپیکر محمد باقر قالیبافتصویر: Valery Sharifulin/POOL/dpa/picture alliance
نئے قانون کی شدید عوامی مخالفت
ایران میں یہ نیا قانون ابتدائی فیصلے کے مطابق گزشتہ برس دسمبر سے ہی نافذ العمل ہونا تھا، تاہم ایسا ان وسیع تر احتجاجی مظاہروں کے باعث نہیں ہو سکا تھا، جو اس قانون کے خلاف اندرون ملک اور دنیا کے کئی دیگر ممالک میں دیکھنے میں آئے تھے۔
پھر تہران حکومت نے اس قانون کو ویٹو بھی کر دیا تھا اور ساتھ ہی کہا تھا کہ وہ اس میں ترامیم بھی کرے گی۔
اس نئے قانون کے ناقدین میں موجودہ ملکی صدر مسعود پزشکیان بھی شامل ہیں، جو ایک اعتدال پسند قدامت پسند سیاست دان ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر اس متنازعہ قانون کو نافذ کر دیا گیا، تو ملک میں نئے سرے سے بدامنی اور احتجاجی مظاہرے شروع ہو جائیں گے۔
ادارت: امتیاز احمد
ایرانی مظاہرین کے ساتھ دنیا بھر میں اظہار یکجہتی
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔