ایران کی پاکستان کو چا بہار منصوبے میں شمولیت کی دعوت
14 مارچ 2018![Pakistan Islamabad - Iranischer Außenminister Mohammad Javad Zarif besucht Pakistan](https://static.dw.com/image/42972963_800.webp)
نیوز ایجنسی ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک مفصل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے دورہء پاکستان کے دوران نیوز چینل جیو ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران چا بہار منصوبے میں پاکستان کو شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ بھارت بحیرہء عرب کی ایرانی بندرگاہ کو تعمیر کرنے میں ایران کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس بندرگاہ کی تعمیر کا مقصد افغانستان اور وسطی ایشائی ممالک سے تجارت کو آسان بنانا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ان کا ملک پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبے میں شامل ہونے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ کے بیان پر ابھی تک بھارت کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔ بھارت اور پاکستان روایتی حریف ممالک ہیں۔ اور بھارت پاکستان ا ور چین دونوں کو ہی اپنا ’دشمن ملک‘ سمجھتا ہے۔ بھارت چا بہار منصوبے اور اس سے منسلک سڑکوں اور ریلوے لائنوں میں پانچ سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کر چکا ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں بھارت نےاس بندر گاہ کے ذریعے افغانستان کو گندم کی پہلی رسد بھیجی تھی۔
ایرانی وزیر خارجہ پیر کے روز پاکستان پہنچے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی اور پاکستان کی جانب سے ’بر وقت معلومات‘ کی فراہمی کی تعریف کی۔ جواد ظریف کے مطابق پاکستان کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کی بنیاد پر ایرانی بارڈر گارڈز دو خود کش بمباروں کو مار ڈالنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
بھارت کا ایرانی بندرگاہ کے راستے افغانستان کو گندم کا تحفہ
چاہ بہار اور گوادر: بھارت اور ایران بمقابلہ چین اور پاکستان؟
گزشتہ برس کچھ مسلحہ افراد نے ایران کی سرحد پر تعینات دس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا ۔ اس واقعہ کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہو گئے تھے۔ طریف کے مطابق اب بھی دہشت گردوں نے ایک ایرانی اہلکار کو اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان سے کہا کہ وہ اس سکیورٹی اہلکار کو بازیاب کرانے میں مدد فراہم کرے۔ ابھی تک ایران کی انتظامیہ نے یہ نہیں بتایا کہ اس حملے کی ذمہ داری کس نے قبول کی تھی یا اس واقعہ میں کون ملوث ہے۔
جواد ظریف نے پاکستان کی جانب سے حال ہی میں سعودی عرب میں ایک ہزار سے زیادہ فوجیوں کی تعیناتی پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا اور نہ ہی پاکستان کے سابق آرمی چیف کا سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد کی سربراہی کرنے پر اپنا ردعمل دیا۔
سعودی عرب اور ایران مشرق وسطیٰ میں حریف ممالک ہیں اور شام اور یمن میں الگ الگ گروہوں اور حکومتوں کی حمایت کر تے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب بھیجے جانے والے سکیورٹی اہلکاروں سے متعلق پاکستان نے کہا ہے کہ یہ سعودی فوجیوں کو تربیت فراہم کریں گےاور یمن کی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔
ب ج/ ا ا، ایسو سی ایٹڈ پریس