ایران کےاسلامی انقلاب کے قائد آیت اللہ خمینی کا بھارتی کنکشن
جاوید اختر، نئی دہلی
24 مئی 2024
ایران میں سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے قائد شیعہ روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی کی جڑیں بھارت کے ایک چھوٹے سے شہر بارہ بنکی سے پیوست ہیں۔
اشتہار
ایران میں سن 1979کے اسلامی انقلاب کے قائد شیعہ روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی کی جڑیں بھارت کے ایک چھوٹے سے شہر بارہ بنکی سے پیوست ہیں۔ ان کے دادا احمد موسوی ہندی اترپردیش کے ضلع بارہ بنگی کے ایک گاؤں قنتور میں پیدا ہوئے اور بعد میں ایران ہجرت کر گئے تھے۔
آیت اللہ خمینی ہی وہ شخصیت ہے جس نے 1979میں شاہ ایران کا تختہ پلٹ کر وہاں ایک سخت گیر اسلامی حکومت قائم کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جو آج مشرق وسطیٰ میں ایک متبادل طاقت کی حیثیت رکھتا ہے اور امریکہ اور سعودی عرب کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔
ایسا شاید نہیں ہوتا اگر خمینی کے دادا احمد موسوی ہندی بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہجرت کرکے ایران نہ جاتے۔ لیکن یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ایران کی موجودہ تاریخ کی جڑیں بھارت میں پیوست ہیں۔
خمینی کے دادا بارہ بنکی میں پیدا ہوئے تھے
ایک برطانوی نشریاتی ادارے سے وابستہ ایرانی صحافی اور مصنف باقر معین نے اپنی کتاب 'خمینی۔ لائف آف دی آیت اللہ' میں لکھا ہے کہ آیت اللہ خمینی کے دادا سید احمد موسوی تھے، جو بارہ بنکی کے قنتور قصبے میں پیدا ہوئے۔ وہ بھارت کے ساتھ اپنی نسبت کے حوالے سے اپنے نام کے ساتھ 'ہندی' بھی لگاتے تھے۔ احمد موسی سن 1830میں بارہ بنکی سے ایران ہجرت کر گئے۔
باقر معین کے مطابق احمد موسوی ہندی کے والد دین علی شاہ اٹھارہویں صدی کے اوائل میں وسطی ایران سے بھارت آئے تھے۔ احمد موسوی کی پیدائش سن 1800کے قریب بارہ بنکی میں ہوئی جو، اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب برطانوی نو آبادیاتی طاقت بھارت میں مغل حکمرانوں کوشکست دے کر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ احمد موسوی ہندی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے خواہاں اور اسے اس کا حقیقی مقام دلانے کی جدوجہد کرنے والے علماء میں شامل تھے۔
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔
تصویر: Reuters/Official Khamenei website
12 تصاویر1 | 12
بھارت سے ایران ہجرت
احمد موسوی ہندی بہتر زندگی اور اپنے عقیدے کی ترویج کے لیے انیسویں صدی کے اوائل میں عراق ہوتے ہوئے ایران پہنچے۔ انہوں نے ایرانی شہرخمین میں قیام کیا۔ وہاں ایک مکان خریدا اور خاندان بسایا۔ انہوں نے تین شادیاں کیں جن سے پانچ بچے ہوئے۔
باقر معین کے مطابق ان میں مصطفی بھی تھے جو روح اللہ خمینی کے والد تھے۔ جنہیں ایک مقامی زمیندار کے حکم پر اس وقت قتل کردیا گیا جب خمینی کی عمر صرف پانچ ماہ تھی۔
حالانکہ احمد موسوی ہندی کی وفا ت روح اللہ خمینی کی پیدائش سے قبل ہی ہوگئی تھی لیکن ان کی تعلیمات کا اثر پورے خاندان پر تھا اور خمینی کی ذہن سازی میں اس کا بڑا کردار رہا۔ کہا جاتا ہے کہ احمد موسوی کی تعلیمات نے ہی ایران کی تاریخ کو بدل دیا۔
آج کا ایران سن 1979کے قبل کے ایران سے یکسر مختلف ہے۔آیت اللہ خمینی کے بعد ان کے جانشین آیت اللہ علی خامنہ ای ہی ملک کے حقیقی حکمراں ہیں۔ حکومت کے تمام اہم فیصلے ان کی منظوری سے ہی کیے جاتے ہیں۔
آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ آیا آیت اللہ خمینی کے بیٹے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے جانشین بن سکیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس میں بھارت کے چھوٹے سے شہر بارہ بنکی کا کردار بھی شامل ہو گا۔