1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاسداران انقلاب کو پہلے یورپی عدالت دہشت گرد قرار دے‘

23 جنوری 2023

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بؤرل نے کہا ہے کہ ایران کے انقلابی گارڈز یا کو اُس وقت تک دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ یورپی عدالت اس گروپ کو دہشت گرد قرار نہ دے۔

Iran | Militär
تصویر: Morteza Nikoubazl/NurPhoto/picture alliance

 

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے پیر 23 جنوری کو ایک بیان میں کہا کہ ایران کے انقلابی گارڈز 'پاسداران انقلاب‘ کو ایکدہشتگرد ادارے کے طور پر ایک سال تک دہشت گرد گروپوں یا اداروں کی فہرست میں بغیر عدالتی فیصلے کے شامل نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم گزشتہ ہفتے دو یورپی سفارتکاروں نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا تھا کہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے بلاک کی اُس فہرست جن میں ان افراد یا اداروں کے نام شامل ہیں جن پر پابندیاں عائد ہیں ایران کے 37 افراد اور اداروں کے نام شامل کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔

یورپی پارلیمان کا مطالبہ

ایران میں گزشتہ سال 16 اکتوبر کو ایران کی 'اخلاقی پولیس‘ نے 22 سالہ مہسا امینی کو 'غیر موزوں لباس‘ پہننے کے باعث گرفتار کیا تھا، حراست کے دوران وہ کومہ میں جانے کے بعد انتقال کر گئی تھی۔ اس کی ہلاکت کے ساتھ ہی  اسلامی جمہوریہ ایران میں ملک گیر سطح پر احتجاجی مظاہروں اورتشدد کی لہروں میں مسلسل شدت آتی رہی جس کا سد باب کرنے کے لیے حکومت نے سخت ترین کریک ڈاؤن کا سلسلہ جا رکھا ہوا ہے۔ ایرانی سکیورٹی فورسز نے تہران میں یونیورسٹی طلبا پر رات کے وقت کریک ڈاؤن کرنا شروع کیا تھا اورتب سے اب تک ہزاروں مظاہرین کو گرفتار اور درجنوں کو سخت سزائیں دی جا چُکی ہیں۔ اس اثناء میں کئی مظاہرین کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد بھی ہو چکا ہے۔  

ایران میں وسیع پیمانے پر حکومتی فورسز اور انقلابی گارڈز کی طرف سے انسانی حقوق کی کُھلی پامالی پر ہیومن رائٹس واچ کے علاوہ متعدد عالمی تنظیموں کی طرف سے تہران حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ایران کا سفارتی اورسیاسی بائیکاٹ کرنے اور اس پر سخت پابندیاں عائد کرنے کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔

یورپی پارلیمان نےیورپی یونینسے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے انقلابی گارڈز کو دہشت گرد اداروں کی فہرست میں شامل کرے اور پاسداران کو ایران میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہزاروں ایرانی باشندوں پر جبر اور تشدد کرنے اور روس کو یوکرین کے خلاف جنگ کے لیے مبینہ طور پر ڈرون فراہم کرنے جیسے جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اس پر سخت ترین پابندیاں عائد کی جائیں۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بؤرلتصویر: Olivier Matthys/AP Photo/picture alliance

اس سلسلے میں پیر 23 جنوری کو یورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز پہنچنے پر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بؤرل نے صحافیوں کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،''یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا فیصلہ عدالت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں آپ کو دہشت گرد سمجھتا ہوں کیونکہ میں آپ کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

جوزف بؤرل کا مزید کہنا تھا کہ قبل اس کے کہ یورپی یونین خود کوئی کارروائی کرے، یورپی یونین کے اراکین پر مشتمل عدالت کو ایک ٹھوس قانونی مذمتی بیان جاری کرنا چاہیے۔

ایرانی انقلابی گارڈ کا قیام

1979ء میں ایران کےاسلامیانقلاب کے فوراً بعد ایران کے شیعہ علما کے سیاسی نظام کے تحفظ اور ایران کی ریگولر آرم فورسز یعنی ایرانی فوج کو مزید تقویت دینے کے لیے پاسداران انقلاب آئی آرجی سی کا وجود عمل میں آیا۔

اسلامی گارڈ کے پاس ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ پچیس ہزار فوجیوں پر مشتمل مضبوط آرمی ہے۔ جس میں بحریہ اور فضائی یونٹس شامل ہیں۔ اس کے پاس بسیج مذہبی ملیشیا کا کمان بھی ہے اور یہ ملیشیا ایک رضاکار نیم فوجی دستہ ہے جسے مذہبی علما کی اسٹیبلشمنٹ ساتعمال کرتی ہے اور اسے اکثر حکومت مخالف فورسز کے کریک ڈاؤن کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔

ایران میں مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی قیادت کون کر رہا ہے؟

دریں اثناء یورپی یونین کے رکن ممالک اور تہران کے درمیان تعلقات کافی حد کشیدہ ہو گئے ہیں اور جوہری مذاکرات کی بحالی کی کوششیں تعطل کا شکار ہو  ہیں۔ اُدھر ایران نے مظاہروں کے پس منظر میں کئی یورپی شہریوں کو بھی حراست میں لے رکھا ہے اور پورپی بلاک میں شامل ممالک میں ایران میں مسلسل 

 پرتشدد کارروائیوں پرحکومتی اور عوامی  تنقید میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ک م/ رب (روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں