ایران کے اہم جوہری سائنس دان قاتلانہ حملے میں ہلاک
27 نومبر 2020
ایران کے اہم جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ تہران کے قریب ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے۔ اسرائیل اور مغربی ممالک فخری زادہ کو ایرانی خفیہ ایٹمی منصوبے کا سربراہ قرار دیتے رہے ہیں۔
اشتہار
تہران حکومتی ذرائع نے بھی فخری زادہ کے قتل کی تصدیق کر دی ہے۔ قبل ازیں ایرانی میڈیا نے بتایا تھا کہ جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ 'دہشت گردوں‘ کے حملے میں زخمی ہو گئے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ دارالحکومت تہران کے نواح میں پیش آیا۔ مسلح حملہ آوروں نے پہلے ایک گاڑی کو دھماکے سے اڑایا اور اس کے بعد انہوں نے فخری زادہ اور ان کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ کرنے والے افراد کو ہلاک کر دیا گیا لیکن اس دوران فخری زادہ بھی شدید زخمی ہو گئے۔
محسن فخری زادہ کے زخمی ہونے کی خبروں کے بعد ایرانی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا، ''بدقسمتی سے میڈیکل ٹیم انہیں بچانے میں ناکام رہی اور چند منٹ قبل کئی برسوں سے محنت اور کاوشیں کرنے والے مینیجر اور سائنس دان (محسن فخری زادہ) شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے۔‘‘
’حملے میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے اشارے‘
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیے گئے اپنے پیغام میں لکھا، ''دہشت گردوں نے اہم ایرانی سائنس دان کو قتل کر دیا۔ یہ بزدلانہ اقدام، جس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے سنجیدہ اشارے موجود ہیں، حملہ آوروں کے شدید جنگی جنون کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘
اسرائیل، مغربی ممالک اور امریکی خفیہ اداروں کے مطابق محسن فخری زادہ ایران کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے سرگرم خفیہ پروگرام کے سربراہ بھی تھے۔ اقوام متحدہ کے نیوکلیئر واچ ڈاگ کے مطابق یہ منظم خفیہ پروگرام سن 2003 میں ختم کر دیا گیا تھا۔
تاہم ایرانی حکام اور خود محسن فخری زادہ بھی ایسے الزامات کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے فوری طور پر اس واقعے پر ردِعمل ظاہر کرنے سے انکار کر دیا۔ نیتن یاہو نے برسوں پہلے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایرانی ایٹمی منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے محسن فخری زادہ کا نام لیتے ہوئے کہا تھا، ''اس نام کو یاد رکھیے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ کے اقتدار کے آخری دنوں کے دوران فخری زادہ کے قتل کے بعد ایران اور امریکا کے مابین کشیدگی میں اضافے کا خدشہ بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔
ش ح/ ا ا (ڈی پی اے، روئٹرز)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔