ایران کے تین یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات جمعے کے روز
28 نومبر 2024تہران سے جمعرات 28 نومبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایرانی جوہری پروگرام کے بڑے ناقد ان چاروں مغربی ممالک کی سیاسی کوششوں سے اقوام متحدہ کے ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے تہران کے رویے پر جو کڑی تنقید کی تھی، ایران نے اسے مسترد کرتے ہوئے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔
لیکن پھر چند ہی روز بعد ایرانی حکومت نے یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ وہ امریکہ میں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے قبل اپنے نیوکلیئر پروگرام سے متعلق سرکردہ مغربی ممالک کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہے۔
امریکہ میں ریپبلکن سیاست دان ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں واشنگٹن حکومت نے ایران کے خلاف ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی اپنا رکھی تھی۔
ایرانی نمائندگی وزیر خارجہ کے نائب کریں گے
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا نے بتایا ہے کہ ان مذاکرات میں ایران کی نمائندگی تجربہ کار سفارت کار اور ملکی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے سیاسی نائب مجید تخت روانچی کریں گے۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے سفارتی نمائندوں کے ساتھ اپنی جمعے کے روز ہونے والی بات چیت سے قبل مجید تخت روانچی یورپی یونین کے اعلیٰ اہلکار اینریک مورا سے بھی ملیں گے۔ مورا یورپی یوین کے خارجہ امور کے شعبے کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔
جوہری معاہدے پر ایران اور یورپی یونین میں شدید اختلافات
ایران تین بڑے یورپی ممالک کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام سے متعلق مکالمت اس لیے کرنا چاہتا ہے کہ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے 35 ممالک پر مشتمل بورڈ آف گورنرز نے ایک ایسی قرارداد منظور کر لی تھی، جس میں تہران کی طرف سے اس کے جوہری پروگرام سے متعلق تنازعے میں تعاون نہ کیے جانے پر اس کی مذمت کی گئی تھی۔
مذمتی قرارداد کے بعد ایرانی موقف اور اہداف
آئی اے ای اے کی مذمتی قرارداد کے بعد ایران نے کہا تھا کہ اس کے خلاف امریکہ نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ مل کر جو دستاویز منظور کرائی، وہ ''سیاسی محرکات‘‘ کا نتیجہ تھی۔
اس کے ساتھ ہی تہران حکومت نے یہ جوابی اعلان بھی کر دیا تھا کہ وہ اپنی جوہری تنصیبات میں ایسی ''نئی اور جدید تر سینٹری فیوج مشینیں‘‘ متعارف کرائے گا، جو افزودہ یورینیم کے زیادہ بڑے ذخیرے کو محفوظ رکھنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں۔
ایران ’سیاسی دباؤ کے بغیر‘ جوہری مذاکرات کے لیے پُر امید
سیاسی تجزیہ کار مصطفیٰ شیر محمدی کے مطابق تہران کا ہدف یہ ہے کہ وہ خود کو اس ممکنہ ''دوہری ناکامی‘‘ سے بچا سکے، جس کا اسے مستقبل میں امریکہ میں صدر ٹرمپ اور ساتھ ہی یورپی اقوام کی طرف سے نئی بین الاقوامی پابندیوں کی صورت میں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایران کے لیے یورپی حمایت میں کمی
مصطفیٰ شیر محمدی کے مطابق یورپ میں روس کے یوکرین پر فوجی حملے کے باعث شروع ہونے والی اور ابھی تک جاری جنگ کے تناظر میں یورپی ممالک میں ایران کے لیے کسی حد تک پائی جانے والی حمایت میں کمی ہوئی ہے۔
اس کا سبب یہ الزامات بنے کہ ایران روس کی یوکرین کے خلاف جنگ میں ماسکو کی فوجی حوالے سے مدد کر رہا ہے، خاص کر اپنے 'شاہد‘ طرز کے جنگی ڈرونز کی روس کو فراہمی کی صورت میں۔
تہران کی طرف سے البتہ یوکرین اور چند مغربی ممالک کے ان الزامات کی بھرپور تردید کی جاتی ہے کہ وہ جنگ کے تناظر میں روس کی کوئی عسکری مدد کر رہا ہے۔
اس کے برعکس ایران کو امید ہے کہ وہ مناسب فاصلے پر رہتے ہوئے یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ان کی موجودہ سطح سے بہتری کی طرف لے جا سکتا ہے۔
م م / ع ا (اے ایف پی، اے پی)