ورزش اور جسمانی فِٹنس کے ایرانی جِموں میں جدت بھی ہے اور قدیم روایت بھی نظر آتی ہیں۔ یہ ورزش گاہیں ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح ایرانی معاشرہ مغرب سے متاثر بھی ہے اور اپنے مذہب اور روایات کے بہت قریب بھی۔
اشتہار
وسطی تہران کے ایک خوبصورت نئے ’سپورٹ پلس جِم‘ میں یورپی میوزک اونچی آواز میں چل رہا ہے۔ اسی فٹنس سینٹر سے دس منٹ کے فاصلے پر ’زر خانہ‘ ہے، یہاں ایک شخص بہت بڑے ڈرم کو بجا رہا ہے اور ڈرم بجاتے بجاتے وہ زور دار رونے کی آواز کے ساتھ مسلمانوں کے رہنما امام علی کو یاد کرتا ہے۔ اس شخص کے سامنےبھی لوگ ہزاروں برس پرانے روایتی آلات سے ورزش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب سپورٹ پلس جِم میں ورزش کرنے والے افراد اپنے جسم کو فٹ رکھنے کے لیے مشق میں مصروف ہیں اور اپنی تصاویر کو انسٹاگرام پر شئیر بھی کرتے ہیں۔ یہاں انہیں انرجی ڈرنکس اور پھلوں سے بنائی گئی سمودیز پیش کی جاتی ہیں تو زر خانہ میں چھوٹی پیالیوں میں چینی کے ٹکڑوں کے ساتھ چائے پیش کی جاتی ہے۔
تہران کے ان جدید اور روایتی فٹنس سینٹرز میں بظاہر تو بہت زیادہ فرق ہے لیکن دونوں آج کے تہران کے عکاس ہیں۔ آج تہران کی نوجوان نسل کافی فروخت کرنے والے جدید کیفیوں، گیلریز اور فٹنس سینٹرر میں جانا پسند کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ایران کی روایتی ثقافت کو نقصان پنہچا ہے لیکن اتنا نہیں جتنا کہ تصور کیا جارہا ہے۔
ایران کے بازاروں، مساجد اور زرخانہ میں فارس کی ثقافت کی مضبوط جڑیں ہیں۔ زرخانے کا آغاز لگ بھگ آٹھ سو برس پہلے سے ہوا تھا۔ تہران کی ایک فیکٹری کے ریٹائڑ ملازم حسین پیکنفر باقاعدگی سے زرخانے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے،’’اب لوگ بہت مصروف ہوگئے ہیں اور ان کے پاس دوسری بہت سی چیزیں کرنے کو ہیں لیکن اب بھی بہت سے لوگ زرخانوں کو رخ کرتے ہیں۔‘‘
پیکنفر کے مطابق یہاں ورزش کا اسلام سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ ایران کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں لگ بھگ ایک ہزار زرخانے قائم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے وقتوں میں لوگ زرخانوں میں ورزش کرنے والے افراد کے پسینے کو ایک رومال کے ذریعے مریض کو لگایا جاتا تھا تاکہ اسے شفا ملے۔
ب ج/ ع ت، اے ایف پی
جاپان میں سومو کشتی کے ننھے ستارے
جاپان میں سومو پہلوانوں کو اسٹار سمجھا جاتا ہے۔ تاہم شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے بہت چھوٹی عمر سے محنت کرنی پڑتی ہے۔ قومی چیمپئین شپ کے مقابلوں تک صرف بہترین پہلوان ہی پہنچتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
طاقتور پہلوانوں کے لیے زیادہ مواقع
زیادہ تر جاپانی اب بھلے ہی بیس بال اور فٹ بال دیکھنے لگے ہوں لیکن جاپان کا قومی کھیل اب بھی روایتی سومو کُشتی ہی ہے۔ بچے بھی اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ سومو فائٹر بننے کے لیے ٹریننگ چھ سال کی عمر سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ان کی خوراک بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ بہترین پہلوان بچوں کا مقابلہ ٹوکیو میں ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
بہترین بمقابلہ بہترین
جاپان میں پرائمری اسکولوں کے قریب چالیس ہزار بچے سوموکشتی کے ابتدائی مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ مقابلوں کے کئی ادوار کے بعد 40،000 میں سے صرف چار سو بچے ہی ٹوکیو کے بڑے مقابلے کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
استحکام کے ساتھ لچک بھی
پیر جمائے رکھنا، یہی سومو کشتی کا اصل گُر ہے۔ سومو فائٹر بننے کے لیے پاؤں مضبوط ہونا بےحد ضروری ہے۔ لیکن جیت کا دوسرا اہم گُر جسم میں لچک ہونا بھی ہے۔ پیر جمائے رکھنا، یہی سومو کشتی کا اصل گُر ہے۔ سومو فائٹر بننے کے لیے پاؤں مضبوط ہونا بےحد ضروری ہے۔ لیکن جیت کا دوسرا اہم گُر جسم میں لچک ہونا بھی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
فرش پر دونوں ٹانگیں مضبوطی سے
سومو کشتی میں بیاسی داؤ ہوتے ہیں۔ کیا داؤ کھیلنے کی اجازت ہے اور کسی کی نہیں، یہ بالکل واضح نہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہ آپ کو رِنگ میں رہنا ہے اور صرف پاؤں کے تلوے زمین چھو سکتے ہیں۔ جو ان قوانین کی خلاف ورزی کرے گا وہ مقابلے سے نکل جائے گا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
لنگوٹ کی اہمیت
سومو کشتی میں فتح اور شکست بہت حد تک چھ میٹر طویل بھاری بھرکم لنگوٹ کے باندھے جانے کی تکنیک پر بھی منحصر ہے۔ اسے جسم کے ساتھ کَس کر باندھنا بہت ضروری ہے تا کہ مد مقابل اسے چھو یا پکڑ نہ پائے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
یکطرفہ مقابلے
اسکول میں ہونے والے مقابلے وزن کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ وہاں عمر دیکھی جاتی ہے۔ ایسے میں اکثر دبلے پتلے بچے بھاری بھرکم پہلوان کے مقابلے میں آ جاتے ہیں اور یوں یہ کشتی یکطرفہ سی لگتی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
جاسوس ریت
سومو کشتی کے اکھاڑے کو دوھیو کہا جاتا ہے۔ گول گھیرے والے اکھاڑے کا قطر ساڑھے چار میٹر ہوتا ہے۔ ریت کی جسم پر چپکنے سے بھی جیوری کے ارکان کو پتہ چلتا ہے کہ کون ہارا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
بیمار کرنے والا کھیل
بچپن سے ہی سومو کشتی سیکھنے والے بچے جلد موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بارہ سے چودہ سال کی عمر تک آتے آتے بیشتر کا وزن 100 کلو گرام تک پہنچ جاتا ہے۔ وزن بڑھنے سے جوڑوں کا درد، ذیابیطس اور دل کے مسائل بھی سامنے آنے لگتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
مقابلے کا فیصلہ سیکنڈوں میں
سومو کشتی کے مقابلوں میں ہار یا جیت کا فیصلہ اکثر جلد ہی ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو یہ فیصلہ ہونے میں چند سیکنڈ سے زیادہ نہیں لگتے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
اکھاڑے کے ننھے ستارے
جیت کے بعد منتخب ہونے والے بچوں کو انٹرویو دینے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسکولوں کے مقابلے جیتنے کے بعد یہ بچے بڑے ٹورنامنٹ کے لیے ٹوکیو پہنچے ہیں۔ ان کے درمیان جو بھی فاتح نکلے گا وہی مستقبل کا سومو اسٹار بنے گا۔