ایران کے خلاف الزامات کے ثبوت ملنا بہت مشکل، انٹرنیشنل میڈیا
17 ستمبر 2019
کئی یورپی ممالک کے اخبارات کے مطابق سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حالیہ ڈرون حملوں میں ایران کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے کوئی قابل اعتماد شواہد ملنا بہت مشکل ہیں اور اس وقت اہم ترین بات خطے میں کشیدگی میں کمی لانا ہے۔
اشتہار
سوئٹزرلینڈ میں زیورخ سے شائع ہونے والے اخبار 'ٹاگَیس اَنسائیگر‘ نے اپنی منگل سترہ ستمبر کی اشاعت میں لکھا ہے، ’’امریکی ماہرین اب ہزاروں سیٹلائٹ تصاویر اور ڈیٹا کے پہاڑ چھان ماریں گے کہ انہیں کوئی ایسے شواہد میسر آ سکیں، جو وہ عالمی برادری کے سامنے رکھ سکیں، اسے اس بات کا قائل کرنے کے لیے کہ سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کے پیچھے ایران ہے، مگر ایسے شواہد کا امریکی ماہرین کے ہاتھ آنا انتہائی مشکل ہو گا۔ اس لیے کہ عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خلاف جنگ کے بعد سے امریکا کی اپنے موقف کے حق میں ایسے شواہد پیش کر سکنے کی اہلیت اور اس کے قابل اعتماد ہونے کو بہت زیادہ نقصان پہنچ چکا ہے۔‘‘
'ایران پر ممکنہ امریکی حملے کی قیمت بہت زیادہ ہو گی‘
اس سوئس اخبار کے مطابق، ''اگر سعودی عرب میں ان ڈرون حملوں میں ایران کا کوئی ہاتھ رہا بھی ہو، تو ایران نے اتنی احتیاط تو کی ہی ہو گی کہ وہ اپنے پیچھےکوئی ثبوت نہ چھوڑے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ تہران کے خلاف اپنے الزامات کی بنیاد پر اگر امریکا نے ایران پر کوئی فوجی حملہ کیا، تو اسے اس کی بہت زیادہ قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘
اسی بارے میں ہالینڈ میں ایمسٹرڈم سے شائع ہونے والے اخبار 'دی ٹیلیگراف‘ نے اپنی آج کی اشاعت میں لکھا ہے، ''امریکی صدر ٹرمپ بظاہر ایران کے ساتھ دوبارہ قربت کے لیے کچھ محتاط کوششیں کر رہے تھے، مگر صورت حال تو مزید خراب ہو کر ایک بڑا بحران بن گئی ہے۔ سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کی ذمے داری یمن میں حوثی باغیوں کی ایران نواز ملیشیا قبول کر چکی ہے، لیکن سعودی عرب کا اصرار ہے کہ یہ حملے یمن سے نہیں کیے گئے تھے بلکہ ان کے لیے تو ایرانی ڈرون استعمال ہوئے تھے۔ اعلیٰ امریکی حکام نے، جن میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو سب سے آگے تھے، یہ الزام لگانے میں کوئی دیر نہ کی کہ ان حملوں کا ذمے دار ایران ہے۔ لیکن پومپیو اب تک کوئی بھی قابل اعتماد شواہد پیش نہیں کر سکے اور ایران اپنے خلاف امریکا اور سعودی عرب کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی بھرپور تردید کرتا ہے۔‘‘
'ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ہی بہتر تھا‘
اسی موضوع پر سویڈن میں سٹاک ہولم سے شائع ہونے والے لبرل اخبار 'ڈاگَینز نیہیٹر‘ نے آج سترہ ستمبر کو لکھا، ''ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والا معاہدہ کوئی قطعی طور پر بہترین ڈیل تو نہیں تھا لیکن جو کچھ اب ہو رہا ہے، اس سے تو یہ معاہدہ بہت ہی بہتر تھا۔ سعودی شاہی آمریت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے عمل میں بھی اتنے ہی جبر سے کام لے رہی ہے، جس طرح وہ یمن میں عام شہریوں اور بچوں کو بمباری کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، وہ تو اس معاملے میں یکطرفہ طور پر سعودی عرب کی حمایت کر رہے ہیں اور ہتھیاروں کی تجارت کے ان نئے لیکن بیش قیمت معاہدوں پر بہت خوش ہیں، جو امریکا کو یمن کی جنگ اور خلیج کے خطے میں موجودہ کشیدگی کی وجہ سے مل رہے ہیں۔‘‘
خليجی خطے کی حاليہ کشيدگی، کب کب، کيا کيا ہوا
امريکا کی جانب سے فوجيوں کی تعداد میں اضافہ اور عسکری ساز و سامان کی تعيناتی، سعودی تنصيبات پر حملے و ايران کی دھمکياں۔ خليج کے خطے ميں اس وقت شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔ چند حاليہ اہم واقعات پر ڈی ڈبليو کی تصاويری گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
امريکا کی جوہری ڈيل سے دستبرداری، کشيدگی کی نئی لہر کی شروعات
ايران کی متنازعہ جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کی غرض سے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے پانے والے معاہدے سے آٹھ مئی سن 2018 کو امريکا نے يکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ايران پر اقتصادی پابندياں بحال کر ديں۔ روايتی حريف ممالک ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی کی تازہ لہر کا آغاز در اصل اسی پيش رفت سے ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
ايران کی بے بسی اور پھر جوہری ڈيل سے دستبرداری
آنے والا وقت ايرانی اقتصاديات کے ليے بے حد مشکل ثابت ہوا۔ افراط زر اور ديگر معاشی مسائل کے سائے تلے دباؤ کی شکار تہران حکومت نے رواں سال مئی کے اوائل ميں اعلان کيا کہ آٹھ مئی کو ايران اس ڈيل سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اس پيشرفت کے بعد ڈيل ميں شامل ديگر فريقين نے ايران پر زور ديا کہ ڈيل پر عملدرآمد جاری رکھا جائے تاہم تہران حکومت کے مطابق امريکا پابنديوں کے تناظر ميں ايسا ممکن نہيں۔
امريکی قومی سلامتی کے مشير جان بولٹن نے پانچ مئی کو اعلان کيا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے ’يو ايس ايس ابراہم لنکن‘ نامی بحری بيڑہ اور بمبار طيارے مشرقی وسطی ميں تعينات کيے جا رہے ہيں۔ اس اقدام کی وجہ مشرق وسطی ميں ’پريشان کن پيش رفت‘ بتائی گئی اور آئندہ دنوں ميں پيٹرياٹ ميزائل دفاعی نظام اور بی باون لڑاکا طيارے بھی روانہ کر ديے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Mass Communication Specialist 3r/U.S. Navy/AP/dpa
سعودی تنصيبات پر حملے، ايران کی طرف اشارے مگر تہران کی ترديد
متحدہ عرب امارات سے متصل سمندری علاقے ميں دو سعودی آئل ٹينکروں کو بارہ مئی کے روز حملوں ميں شديد نقصان پہنچا۔ يہ حملے فجيرہ کے بندرگاہی شہر کے قريب ہوئے جو آبنائے ہرمز کے قریب ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ ايران يہ کہتا آيا ہے کہ امريکی جارحيت کی صورت ميں وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ايران نے سعودی آئل ٹينکروں پر حملے کو ’قابل مذمت اور خطرناک‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
مسلح تنازعے سے بچاؤ کے ليے سفارت کاری
تيرہ مئی سن 2019 کو جوہری ڈيل ميں شامل يورپی فريقين نے امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو سے ملاقات کی۔ برطانيہ نے ’حادثاتی طور پر جنگ چھڑ جانے‘ سے خبردار بھی کيا۔ ايک روز بعد ہی پومپيو نے کہا کہ امريکا بنيادی طور پر ايران کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہيں۔ پھر ايرانی سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای نے بھی کشيدگی ميں کمی کے ليے بيان ديا کہ امريکا کے ساتھ جنگ نہيں ہو گی۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
امريکا ايران کشيدگی، عراق سے متاثر
اس پيش رفت کے بعد پندرہ مئی کو امريکا نے عراق ميں اپنے سفارت خانے ميں تعينات تمام غير ضروری عملے کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر ديے۔ اس فيصلے کی وجہ ايران سے منسلک عراقی مليشياز سے لاحق خطرات بتائی گئی۔ جرمنی اور ہالينڈ نے بھی عراقی فوجيوں کی تربيت کا عمل روکنے کا اعلان کر ديا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
امريکی صدر کی اب تک کی سخت ترين تنبيہ
انيسی مئی کو امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ايک بيان ميں ايران کو خبردار کيا کہ امريکی مفادات و امريکا کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانے کی کوشش کے نتيجے ميں ايرن کو تباہ کر ديا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا، ’’اگر ايران لڑنا چاہتا ہے، تو يہ اس سرزمين کا خاتمہ ہو گا۔‘‘
تصویر: Imago/UPI//Imago/Russian Look
خطے کے معاملات ميں مبينہ مداخلت پر ايران پر کڑی تنقيد
گو کہ پچھلے دنوں دونوں ممالک نے مقابلتاً نرم بيانات بھی ديے اور کشيدگی کم کرنے سے متعلق بيانات سامنے آئے تاہم کشيدگی اب تک برقرار ہے۔ انتيس مئی کو جان بولٹن نے کہا کہ انہيں تقريباً يقين ہے کہ سعودی آئل ٹينکروں پر حملے ميں ايران ملوث ہے۔ اسی روز اسلامی تعاون تنظيم کے اجلاس ميں بھی سعودی وزير خارجہ نے خطے ميں ايرانی مداخلت پر کڑی تنقيد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
8 تصاویر1 | 8
'امریکی فوجی کارروائی بہت بڑی غلطی ہو گی‘
خلیج فارس میں پائی جانے والی موجودہ شدید کشیدگی کے پس منظر میں اسپین میں میڈرڈ سے شائع ہونے والے اخبار 'لا وینگارڈیا‘ نے لکھا ہے، ''سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ڈرون حملوں کے بعد امریکا کی طرف سے ایران کے خلاف فوجی کارروائی، جس پر اس وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ غور کر رہے ہیں، ایک ایسی بڑی غلطی ہو گی، جس کے نتائج کا ابھی سے اندازہ لگا سکنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے ہوش کی ضرورت ہے۔ ایک مثبت پیش رفت یہ ہو سکتی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے ملیں اور نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایک دوسرے سے بات چیت کر کے وہ کام کریں جو اس وقت اشد ضروری اور ناگزیر ہے: خطے میں شدید کشیدگی میں غیر مشروط طور پر کمی۔‘‘
نیٹو سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ کی اپیل
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ناروے سے تعلق رکھنے والے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملوں کے بعد منگل سترہ ستمبر کو جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''خلیج فارس کے خطے میں کشیدگی میں فوری کمی کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر توانائی کے ذرائع کی ترسیل میں کوئی بھی رکاوٹ نیٹو کے رکن اتحادی ممالک کے لیے ظاہر ہے تشویش کی بات ہے۔ لیکن میں اس تنازعے کے تمام فریقوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کسی نئے ناخوش گوار واقعے کو عمل میں آنے سے روکیں اور خطے میں سلامتی کو درپیش سنجیدہ نوعیت کے خطرات کا تدارک کرنے کی دلی کوششیں کریں۔‘‘
م م / ع س (ڈی پی اے، روئٹرز)
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔