ایران کے خلاف امریکی پابندیاں، چیلنج اور مشکلات
17 فروری 2012
صدر باراک اوباما کی خواہش ہے کہ ان پابندیوں کے نتیجے میں عالمی منڈیوں میں خوف کی لہر، اقتصادی شرح نمو میں کمی، عام ایرانی باشندوں کی غربت میں اضافہ یا حلیف ملکوں کی ناراضگی جیسے خطرات پیدا نہ ہوں۔ اس کے علاوہ امریکہ اور ایران دونوں میں رواں برس انتخابات بھی ہونے جا رہے ہیں جن میں یہ مسئلہ حاوی ہو گا۔
حالیہ ہفتوں میں امریکی حکام نے جاپان اور جنوبی کوریا سمیت ان کئی ملکوں کا دورہ کیا ہے جو ایرانی تیل کی درآمدات پر کافی انحصار کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ ان پابندیوں کی نتیجے میں امریکہ میں تیل کی قیمتوں میں انتہائی اضافہ نہ ہو کیونکہ اس سے امریکی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے حلیف ملکوں سے اب تک کے مذاکرات سود مند رہے ہیں تاہم وہ اپنے دوستوں کو دشمنوں میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے اور پابندیوں پر عمل درآمد کے معاملے کا محتاط انداز میں جائزہ لیں گے۔
امریکی محکمہ خزانہ میں دہشت گردی کی مالی امداد کے امور سے متعلق اسسٹنٹ سیکرٹری ڈینئل گلیزر نے ایک انٹرویو میں کہا، ’ان پابندیوں میں لچک کی گنجائش موجود ہے۔ ان پر عمل درآمد کرنے والے ملک اپنے مالی فیصلے خود کریں گے اور امریکہ اس ضمن میں ان کی مدد کرے گا‘۔
صدر اوباما کے دستخط کردہ ایک نئے قانون کے تحت امریکہ ایران کے مرکزی بینک کے ساتھ پٹرولیم سے متعلقہ لین دین کرنے والے غیر ملکی بینکوں سے روابط منقطع کر سکتا ہے۔
نئی پابندیوں کے نفاذ سے قبل اس بات کے ثبوت مل رہے ہیں کہ مغربی دباؤ کے نتیجے میں بعض غلط اہداف نشانہ بن رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ایران کو اناج کی ترسیل ہے جو کہ انسانی بنیادوں پر فراہم کیے جانے والے دیگر سامان کی طرح پابندیوں سے مستثنٰی ہے مگر ایرانی بینکوں پر عائد مالی پابندیوں کی وجہ سے حال ہی میں اس سامان کی بعض کھیپیں روک لی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں ابھی تک اس بات کے بھی کوئی اشارے نہیں ملے کہ ان پابندیوں سے ایران کے مقتدر حلقوں کو کوئی زک پہنچی ہے۔
امریکہ کی ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل رونلڈ برجس نے جمعرات کو کانگریس کو بتایا کہ ایران پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود ’تہران حکومت اپنے جوہری پروگرام کو ترک کرنے پر آمادہ ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔‘
تاہم حالیہ دنوں میں ایران کی جانب سے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات پر ’نئے اقدامات‘ کی تجویز سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اقتصادی پابندیاں اپنا کچھ نہ کچھ اثر دکھانا شروع ہو گئی ہیں۔
ایرانی کرنسی ریال کی قدر میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ پابندیوں کے بل پر دستخط سے قبل بلیک مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کی مالیت تیرہ ہزار ریال تھی جو فوری طور پر گر کر بیس ہزار ریال ہو گئی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایرانی تیل کی آمدنی میں بیس سے پچیس فیصد کمی سے یہ اندازہ ہو گا کہ پابندیوں نے ایرانی معیشت کو زک پہنچانا شروع کر دی ہے۔ تیل کی برآمدات پر پابندیوں کا باضابطہ اطلاق رواں برس 28 جون سے ہو گا۔
ایرانی عوام نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کے بعد اپنی بچتوں کو مضبوط بین الاقوامی کرنسیوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
اپنے دوست ملکوں کے خدشات رفع کرنے کے لیے امریکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارت اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ملکوں سے بھی یہ امید کر رہا ہے کہ وہ ایرانی تیل پر پابندیوں کے نتیجے میں اس کی کمی کو پورا کریں گے۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک