ایران کے خلاف عالمی اتحاد کے لیے کوشاں ہیں، پومپیو
24 جون 2019
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اچانک خلیجی علاقے کے دو ممالک کے ایک دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔ وہ یہ دورہ ایران کے ساتھ پیدا کشیدگی کے تناظر میں کر رہے ہیں۔
اشتہار
امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے اپنے دورے کے دوران ایران کے خلاف عالمی اتحاد قائم کرنے کی کوششیں کریں گے۔ پومپیو اس دورے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جائیں گے۔ سعودی عرب روانگی سے قبل امریکی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ وہ مختلف ممالک سے رابطے رکھے ہوئے ہیں تا کہ اسٹریٹیجیک بنیاد پر ايران کے خلاف ایک عالمی اتحاد کا قیام ممکن ہو سکے۔
پومپیو کے مطابق سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دورے کے مقاصد میں اُن کوششوں کو تقویت دینی ہے تا کہ ایران مختلف ملکوں میں دہشت گردی کی حمایت کو ختم کر دے، جوہری ہتھیار سازی کے اپنے ممکنہ منصوبے سے کنارہ کش ہو جائے اور بیلسٹک میزائل سازی سے بھی اجتناب کا فیصلہ کرے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنے صدر کے ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے کی خواہش کو بھی دہرایا۔
اس کا قوی امکان ہے کہ سعودی عرب میں قیام کے دوران اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں شرکت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے سعودی ہم منصب ابراہیم بن عبدالعزیز سے بھی ملاقات کریں گے۔ وہ اس دورے کے دوران سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی اور تناؤ میں اُس وقت سے اضافہ ہو رہا ہے، جب امریکی صدر نے ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ امریکا اس مناسبت سے ایران کے ساتھ نئے مذاکرات شروع کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ سن 2015 میں طے پانے والی ڈیل سے علیحدگی کے بعد سے ایران پر اقتصادی پابندیوں کے نفاذ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ رواں ہفتے کے دوران امریکا کی جانب سے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا بھی اعلان کیا جا چکا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اسی دورے کے دوران منگل کو بھارت بھی جائیں گے۔ ان دوروں کے بعد وہ جی ٹوئنٹی سمٹ میں اپنے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وفد میں شامل ہو جائیں گے۔ امریکی صدر ٹرمپ جاپان کے علاوہ جنوبی کوریا کا بھی دورہ کریں گے۔
لوئیسا رائٹ (عابد حسین)
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔