ایران کے خلاف پابندیاں، کارروائی: پاکستان غیرجانبدار رہے گا؟
عبدالستار، اسلام آباد
9 مئی 2019
مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر پاکستان میں کئی حلقے یہ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ اگر مستقبل میں ایران اور امریکا کے مابین کسی تصادم کی صورت بن گئی، تو کیا اسلام آباد غیر جانبدار رہ سکے گا؟
اشتہار
امریکا نے حال ہی میں اپنے طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے مشرق وسطیٰ میں بھیجے ہیں، جس سے خطے میں کشیدگی بڑھ جانے کا امکان زیادہ ہو گیا ہے۔ ایران کی طرف سے اس کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کی کچھ شقوں کو جزوی طور پر غیر مؤثر قرار دیے جانے کے بعد بھی صورت حال مزید خراب ہوئی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ خطے میں کسی ممکنہ جنگ یا ایران میں سیاسی انتشار کی صورت میں اسلام آباد کا کردار بہت اہم ہو جائے گا۔ ماضی میں خطے میں ہونے والی جنگوں میں پاکستان نے واشنگٹن کا ساتھ دیا تھا۔ کالعدم سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی مداخلت کے بعد پاکستان نے امریکا اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین کی مدد کی تھی اور پھر عشروں بعد نائن الیون کے حملوں کے بعد بھی پاکستان نے افغانستان پر واشگٹن کی فوجی چڑھائی حملے کے بعد بھی امریکا کی مدد کی تھی۔
کشیدگی کے اس تناظر میں بدھ آٹھ مئی کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں کی گئی تقریریں بھی بہت اہمیت اختیار کر گئیں۔ اس سیمینار میں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران کے علاوہ خطے کی موجودہ صورت حال پر بھی اظہار رائے کیا گیا۔ پاکستانی سینیٹ کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں کسی نئے ’فوجی ایڈونچر‘ کی حمایت نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنی سرزمین کو تہران کے خلاف استعمال ہونے دے گا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک رہنما جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان ایران کے خلاف جارحیت، تہران کی سفارتی تنہائی یا اس کے خلاف اقتصادی گھیراؤ کی کبھی حمایت نہیں کرے گا۔
تاہم سیمینار ہالوں سے باہر ملکی سیاست دان اور تجزیہ نگار ایسا امید افزا منظر بھی پیش نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں پاکستان کسی نئی جنگ کی صورت میں اپنی غیر جانبداری برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلے ہی چینی کیمپ سے امریکی کیمپ کی طرف جا رہا ہے اور واشنگٹن اس سے جانبداری کا مطالبہ کرے گا۔
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Ernesto
5 تصاویر1 | 5
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکی کیمپ میں سعودی عرب بھی ہے، جس سے ہم مالی امداد مانگتے ہیں جب کہ ہم آئی ایم ایف سے بھی رقوم مانگ رہے ہیں، جہاں امریکا کا بہت اثر و رسوخ ہے۔ تو میرے خیال میں آئی ایم ایف سے کوئی پیکج ملنے کے بعد ہم امریکا کو نہ نہیں کہہ سکیں گے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی طرف سے امداد بھی مفت نہیں اور وہ بھی چاہے گا کہ اسلام آباد تہران کے خلاف ریاض کے ایجنڈے کا حصہ بنے۔‘‘
ڈاکٹر امان میمن کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے بھی ایرانی سعودی تنازعات میں ریاض کے قریب ہی رہا ہے، ’’کیا ہم نے اسلامی عسکری اتحاد کی کمان نہیں سنبھالی، جو سعودی مفادات کی نگرانی کر رہا ہے۔ تو اگر ہم اسلامی عسکری اتحاد کی فوج بنانے کے معاملے میں بھی اپنی غیر جانبداری برقرار نہیں رکھ سکے، تو آئندہ ایسا کیسے کر سکیں گے۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں ایران کا جو دورہ کیا تھا، اس کے بعد سے کئی مبصرین یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی خوشگوار ہو رہے ہیں۔ تاہم کئی سیاست دانوں کے خیال میں پاکستان اب بھی ایک مضبوط سعودی اتحادی ہے۔ معروف سیاست دان سینیڑ عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی غیرجانبداری کا سوچنا کوئی منطقی بات نہیں ہے، ’’ہم نے تو پہلے ہی پاکستان کو عرب شیخوں کے ہاتھوں میں گروی رکھا ہوا ہے۔ سعودی عرب تین ارب ڈالر کی امداد دے رہا ہے اور سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی بھی کر رہا ہے۔ تو یہ سب کچھ مفت اور بلاوجہ تو نہیں ہے۔‘‘
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
10 تصاویر1 | 10
سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ پاکستانی پارلیمان تو یہ کہہ چکی ہے کہ پاکستان کو غیر جانبدار رہنا چاہیے، ’’لیکن اصل فیصلہ تو اسٹیبلشمنٹ نے کرنا ہے۔ اگر ہم ایران کے خلاف جنگ کا حصہ بنے، تو اس کا مطلب ہمارے معاشرے کے لیے تباہی ہی تباہی ہو گا۔ اور جملہ آثار یہ بتاتے ہیں کہ ہم غیر جانبدار نہیں رہیں گے۔‘‘
پاکستان میں سعودی عرب کا گہرا اثر و رسوخ ایک حقیقت ہے۔ ملک کئی حوالوں سے خلیج کی اس قدامت پسند بادشاہت پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستانی مزدوروں کی بہت بڑی تعداد وہاں کام کرتی ہے۔ سعودی عرب ادھار تیل پاکستان کو دیتا رہا ہے اور کئی مواقع پر اس نے اسلام آباد کی مالی مدد بھی کی ہے۔ لیکن سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ان تمام نوازشات کے باوجود اسلام آباد کو غیر جانبدار رہنا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما سید ظفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے جانبداری کی، تو اس کے خلاف سخت مزاحمت ہو سکتی ہے، ’’پاکستان میں دو ہی فرقوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سنی اور شیعہ مسلمان۔ تو اگر پاکستان نے ایران کے خلاف جانے کی کوشش کی، جو کہ مجھے امید ہے کہ حکومت نہیں کرے گی، تو اس کے خلاف ہر طرف سے مزاحمت ہو گی، جو فوج، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی ہر سطح پر دیکھنے میں آئے گی۔‘‘
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔