ایران کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ، امریکا کی ’تاریخی ناکامی‘
22 اگست 2020
امریکا چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ ایران کے خلاف وہ پابندیاں پھر لگا دے جو اٹھائی جا چکی ہیں، لیکن ٹرمپ انتظامیہ کو سلامتی کونسل میں ایک ’تاریخی ناکامی‘ کا سامنا ہے۔ کل پندرہ میں سے تیرہ ممالک اس امریکی مطالبے کے خلاف ہیں۔
اشتہار
نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر سے ہفتہ بائیس اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق امریکی حکومت نے ایران کے خلاف عالمی ادارے کی ماضی میں اٹھائی جا چکی پابندیاں بحال کرنے کا جو مطالبہ کیا ہے، اس کے نتیجے میں امریکا خود ہی الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ عالمی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی تعداد 15 ہے اور ان میں سے 13 نے تہران سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبے کی تحریری مخالفت کر دی ہے۔
ان ممالک نے امریکی کوشش کی مخالفت یہ کہہ کر کی کہ یہ درست ہے کہ ماضی میں اقوام متحدہ نے ایران کے خلاف اس کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے پابندیاں لگائی تھیں۔ پھر عالمی طاقتوں کا ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے پا گیا تو یہ پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔
امریکی مطالبے کی غلط منطق
اب لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے ان پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ تو کر دیا ہے، مگر ساتھ ہی واشنگٹن حکومت یہ بھول گئی ہے کہ خود امریکی صدر ٹرمپ نے ہی دو سال قبل یک طرفہ طور پر یہ اعلان کر دیا تھا کہ امریکا ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے نکل رہا ہے۔
ان 13 ممالک کے مطابق امریکا کی یہ کوشش اس لیے غلط ہے کہ اس نے تو اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر دیا تھا، جس پر اقوام متحدہ نے بھی باقاعدہ اتفاق کیا تھا۔ تو اب امریکا کس منطق کے تحت دوبارہ ایران کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
امریکی وزیر خارجہ پومپیو کی ڈیڈ لائن
نیوز ایجنسی روئٹرز نے نیو یارک سے لکھا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک 30 روزہ ڈیڈ لائن یا کاؤنٹ ڈاؤن کا ذکر بھی کیا تھا۔ لیکن اس کاؤنٹ ڈاؤن کے آغاز کے صرف 24 گھنٹوں کے اندر اندر ہی کئی ممالک نے اس امریکی مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے باقاعدہ خط بھی لکھ دیے۔
اہم بات یہ ہے کہ ان ممالک میں کئی ایسی مغربی طاقتیں بھی شامل ہیں، جو ماضی میں سلامتی کونسل میں تقریباﹰ ہمیشہ ہی امریکا کی ہم نوا اور ہم خیال رہی ہیں۔ روئٹرز کے مطابق اس کے نامہ نگاروں نے ایسے کل 13 خط دیکھے ہیں، جو سلامتی کونسل کے صدر کو لکھے گئے ہیں اور جن میں کہا گیا ہے کہ ایران کے خلاف عالمی پابندیاں بحال نہیں کی جانا چاہییں۔
مخالف کرنے والے تیرہ ممالک میں امریکا کے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور بیلجیم جیسے روایتی اتحادی ملک اور چین، روس، ویت نام، نائجر، سینٹ ونسینٹ اور گریناڈینز، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، ایسٹونیا اور تیونس شامل ہیں۔
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Ernesto
5 تصاویر1 | 5
ڈومینیکن ریپبلک نے ابھی خط نہیں لکھا
اقوام متحدہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق سلامتی کونسل کے رکن ملک ڈومینیکن ریپبلک نے ابھی تک بظاہر یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ امریکی مطالبے کی حمایت کرے گا یا مخالفت۔ عملاﹰ تاہم اس ملک نے ابھی تک سلامتی کونسل کے نام کوئی خط نہیں لکھا۔
ایران سے متعلق اس تازہ امریکی مطالبے سے قبل امریکا نے سلامتی کونسل میں تہران ہی سے متعلق گزشتہ ہفتے جو قرارداد پیش کی تھی، وہ بھی بہت بڑی اکثریت سے مسترد کر دی گئی تھی۔ اس رائے شماری میں امریکا کا ہم نوا واحد ملک ڈومینیکن ریبپلک تھا، جس نے ہاں میں ووٹ دیا تھا۔
یہ قرارداد اقوام متحدہ کی ایران کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد اس پابندی میں توسیع سے متعلق تھی، جو اس سال اکتوبر میں ختم ہو رہی ہے۔ اپنی پیش کردہ اس قرارداد کی ناکامی کے بعد ہی امریکا نے عالمی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایران کے خلاف اپنی ماضی کی پابندیاں بحال کر دے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے عالمی ادارے کو ایران کے خلاف پابندیوں سے متعلق جو ڈیڈ لائن دی ہے، اس کے مطابق اقوام متحدہ کو تہران کے خلاف اپنے سابقہ پابندیاں 19 ستمبر کو عالمی وقت کے مطابق نصف شب سے بحال کر دینا چاہییں۔
اہم بات یہ ہے کہ اس تاریخ سے محض چند روز بعد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب بھی کریں گے۔ اس سال کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس زیادہ تر ایک ورچوئل اجلاس ہو گا۔
کئی بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے سلامتی کونسل میں امریکا کے اس طرح الگ تھلگ ہو کر رہ جانے کو واشنگٹن کی سفارت کاری کی 'تاریخی ناکامی‘ قرار دیا ہے۔
م م / ع ب (روئٹرز، اے ایف پی)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔