ایران کے ساتھ جنگ سے فائدہ عسکریت پسندوں کو ہو گا، برطانیہ
7 جنوری 2020
برطانیہ نے امریکا اور ایران کے مابین تازہ شدید کشیدگی کے تناظر میں تحمل اور برداشت کی اپیل کی ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈومینیک راب کے مطابق ایران کے ساتھ کسی بھی جنگ کا فائدہ صرف مشرق وسطیٰ میں عسکریت پسندوں کو پہنچے گا۔
اشتہار
لندن سے منگل سات جنوری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق عراق میں گزشتہ جمعے کے روز ایک امریکی فضائی حملے میں ایران کے پاسداران انقلاب کے سپاہ قدس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد واشنگٹن اور تہران کے مابین ایک بار پھر انتہائی شدید ہو جانے والی کشیدگی کے پس منظر میں برطانوی وزیر خارجہ راب نے کہا کہ ہر کسی کو اس لیے تحمل سے کام لینا ہو گا کہ حالات مزید نہ بگڑیں۔
ڈومینیک راب نے کہا، ''ہم جو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی لائی جائے اور عراق کے حوالے سے اس کشیدگی کے باعث صورت حال اس قدر خراب نہ ہو کہ عراق میں دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے خلاف بڑی محنت سے حاصل کی گئی کامیابیاں ضائع ہو جائیں۔‘‘
برطانوی وزیر خارجہ کے مطابق، ''ہمیں تشویش یہ ہے کہ اگر کوئی نئی بھرپور جنگ شروع ہو گئی، تو وہ نہ صرف انتہائی نقصان دہ ہو گی بلکہ اس سے فائدہ مشرق وسطیٰ میں صرف دہشت گردوں، خاص کر داعش کو ہی پہنچے گا۔‘‘
ایران اور امریکا کے مابین اسی تازہ کشیدگی کے سلسلے میں آج منگل کو برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس بھی ہو رہا ہے۔
اس سلسلے میں برطانوی وزیر خارجہ راب نے کہا، ''ہم اپنے امریکی ساتھیوں اور یورپی یونین میں اپنے پارٹنر ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اسی لیے میں بھی آج برسلز جا رہا ہوں۔ تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ واضح پیغام صرف یہ ہے کہ سفارتی راستہ اختیار کرتے ہوئے اس کشیدگی میں ہر حال میں کمی لائی جائے۔‘‘
م م / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔