ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں کشیدگی بڑھے گی، امریکا
26 نومبر 2021
امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایرانی حکومت بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون نہیں کرتی تو جوہری معاہدے کے احیاء کے لیے اگلے ماہ ہونے والے مذاکرات متاثر ہوں گے۔
اشتہار
امریکی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر ایران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون نہیں کرتا، تو اس کا براہ راست اثر اگلے ماہ ہونے والے جوہری مذاکرات پر پڑے گا۔
رواں ہفتے 35 رکنی عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں ایرانی جوہری پروگرام ایک مرکزی نکتہ ہو گا۔
سن 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدہ طے پایا تھا، تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ ہو گیا تھا۔ اسی تناظر میں ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی سمیت دیگر جوہری سرگرمیوں میں خاصی تیزی دیکھی گئی ہے۔ صدر جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد اس جوہری معاہدے کے احیاء کی امید پیدا ہوئی تھی تاہم بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ایران عالمی معائنہ کاروں کو بعض جوہری تنصیبات تک رسائی دینے گریز کر رہا ہے۔
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران تیسا کاراج نامی جوہری تنصیب میں نگرانی کے کیمرے نصب کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔ آئی اے ای اے ان یورینیم ذرات سے متعلق بھی ایران سے وضاحت طلب کر رہی ہے، جو ایک پرانی مگر غیراعلانیہ تنصیب سے ملے تھے۔ آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران عالمی معائنہ کاروں کےکام میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Macdougall
9 تصاویر1 | 9
امریکی حکومت کی جانب سے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے نام بیان میں کہا گیا ہے، ''اگر ایران فوری طور پر عدم تعاون کا رویہ ترک نہیں کرتا، تو بورڈ کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا کہ وہ بحران کے نمٹنے کے لیے رواں برس کے اختتام سے قبل اپنا ایک غیرمعمولی اجلاس طلب کرے۔‘‘
امریکی بیان میں تیسا کاراج کے جوہری پلانٹ میں کیمروں کی تنصیب کا 'خصوصی‘ ذکر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی کے لیے درکار سینٹری فیوجز کے آلات اور پرزے بنائے جاتے ہیں۔ اس پلانٹ پر رواں برس جون میں حملہ کیا گیا تھا، جس کا الزام ایران نے اپنے روایتی حریف اسرائیل پر عائد کیا تھا۔ اس واقعے میں آئی اے ای اے کے نصب کردہ چار میں سے ایک کیمرہ تباہ ہو گیا تھا، جب کہ اس کی فوٹیج غائب تھی، جب کہ واقعے کے بعد ایران نے دیگر تمام کیمرے ہٹا دیے تھے۔ اسرائیل کی جانب سے اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا تھا۔