’ایران کے ساتھ فوجی تنازعہ تباہ کن ہو گا،‘ عمران خان
16 جنوری 2020
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اینس پوہل کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کشمیر کے تنازعے سے متعلق بین الاقوامی برادری کے ’قدرے سرد‘ ردعمل اور ایران کے حوالے سے موجودہ بحران پر تفصیلی بات چیت کی۔
تصویر: DW
اشتہار
اینس پوہل: مسٹر خان! آپ کا کام شاید دنیا کے مشکل ترین فرائض میں سے ایک ہے۔ پاکستان کو امریکا اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھنا ہے۔ بیجنگ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے لیکن اس وجہ سے اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات دباؤ میں ہیں۔ پاکستان کی سرحدیں افغانستان اور ایران جیسے ممالک سے بھی ملتی ہیں، جہاں تنازعات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ آپ اس صورت حال کا سامنا کیسے کر رہے ہیں؟
عمران خان: میں سیاست میں اس لیے آیا تھا کہ میں نے محسوس کیا تھا کہ پاکستان کے پاس بہت زیادہ صلاحیتیں اور امکانات ہیں۔ جب میں بڑا ہو رہا تھا تو پاکستانی معیشت ایشیا میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر رہی تھی اور یہی بات 1960ء کے عشرے میں ترقی کے لیے ایک ماڈل ثابت ہوئی تھی۔ پھر ہم راستے سے بھٹک گئے۔ میرا سیاست میں آنے کا مقصد پاکستان کی انہی صلاحیتوں کا دوبارہ حصول تھا۔
یہ درست ہے کہ ہم مشکل ہمسائیگی والے ماحول میں رہتے ہیں اور ہمیں اپنے اقدامات کو متوازن رکھنا ہی ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب پاکستان کے عظیم ترین دوستوں میں سے ایک ہے اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہا ہے۔ پھر ایران ہے، جس کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات خراب نہ ہوں۔ یہ ایک ایسا خطہ ہے، جو ایک اور تنازعے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پھر ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان بھی ہے۔ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنی بہترین کوششیں کر رہا ہے، ایک ایسا ملک جس نے گزشتہ 40 برسوں میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ طالبان، امریکا اور افغان حکومت مل کر قیام امن کی منزل حاصل کر لیں۔
اینس پوہل: گزشتہ برس پاکستان اور بھارت ایک نئی جنگ کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔ اگست 2019ء میں جب بھارتی وزیر اعظم مودی نے نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دینے کا اعلان کیا، تب سے صورت حال خراب تر ہو چکی ہے۔ اس کشیدگی کے خاتمے کے لیے آپ کی حکومت کیا کر رہی ہے؟
عمران خان: میں وہ پہلا لیڈر تھا، جس نے دنیا کو اس بارے میں خبردار کیا تھا کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے۔ بھارت پر ایک ایسی خاص انتہا پسندانہ نظریاتی سوچ غالب آ چکی ہے، جو 'ہندتوا‘ کہلاتی ہے۔ یہ آر ایس ایس (راشٹریہ سوایم سویک سنگھ) کی نظریاتی سوچ ہے۔ آر ایس ایس ایک تنظیم کے طور پر 1925ء میں قائم کی گئی تھی، جرمن نازیوں سے متاثر ہو کر، اور اس کے بانی نسلی برتری پر یقین رکھتے تھے۔ اسی طرح جیسے نازی آئیڈیالوجی کی بنیاد اقلیتوں سے نفرت پر رکھی گئی تھی، آر ایس ایس کی بنیاد بھی مسلمانوں اور مسیحیوں سمیت دیگر اقلیتوں سے نفرت ہی ہے۔
یہ بھارت کے لیے ایک المیہ ہے اور اس کے ہمسایوں کے لیے بھی، کہ اس ملک پر آر ایس ایس نے قبضہ کر لیا ہے، وہی آر ایس ایس جس نے عظیم مہاتما گاندھی کو قتل کروایا تھا۔ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ایک ایسا ملک ہے، جسے انتہا پسند چلا رہے ہیں۔ کشمیر گزشتہ پانچ ماہ سے مسلسل محاصرے کی حالت میں ہے۔
دربار صاحب کرتارپور: سکھ مذہب کا انتہائی مقدس مقام
سکھ مذہب کے بانی گورو نانک کی پیدائش کا مقام اور جائے رحلت دونوں پاکستان میں واقع ہیں۔ ان کی پیدائش پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب میں ہوئی اور انہوں نے عمر کے آخری کئی سال کرتارپور میں بسر کیے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
سکھ مذہب کے بانی
سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک بعض روایتوں کے مطابق پندرہ اپریل سن 1469 کو رائے بھوئی کی تلونڈی نامی قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ پاکستانی پنجاب میں واقع یہ قصبہ اب ننکانہ صاحب کے نام سے مشہور ہے۔ اُن کا انتقال بائیس ستمبر سن 1539 میں کرتارپور میں ہوا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری تقریباً اٹھارہ برس کرتارپور میں گزارے تھے۔
دربار صاحب کرتارپور کو پاکستان میں سکھ مذہب کے اہم ترین مقدس مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ننکانہ صاحب میں، جہاں سن 1469 میں بابا گرو نانک پیدا ہوئے تھے، وہاں گوردوارہ جنم استھان واقع ہے۔ بابا گورو نانک کی نسبت سے حسن ابدال میں گوردوارہ پنجہ صاحب ہے اور فاروق آباد میں گوردوارہ سچا سودا ہے۔ یہ تمام مقامات پاکستانی پنچاب میں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
دربار صاحب کرتارپور
سکھ مذہب کے بانی اور پہلے گورو بابا نانک نے کرتا پور گوردوارے کا سنگ بنیاد سن 1504 میں رکھا تھا۔ یہ دریائے راوی کے پاکستان میں داخل ہونے کے مقام کے قریب دریا کے دائیں کنارے پر ہے۔ گورو نانک سن 1539 میں اسی مقام پر انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
شری کرتارپور صاحب
دربار صاحب کرتارپور سے سکھ مذہب کے پیروکاروں میں شدید عقیدت پائی جاتی ہے۔ دنیا بھر کی سکھ کمیونٹی کرتارپور کوریڈور کھولنے کا دیرینہ مطالبہ رکھتی تھی۔ وہ اس سے قبل بھارتی پنجاب سے دوربینوں کے مدد سے کرتارپور کے گوردوارے کی زیارت کیا کرتے تھے۔ تصویر میں گوردوارے کا ماڈل ایک آرٹسٹ گورپریت سنگھ نے بنایا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Nanu
کرتارپور راہداری
بھارتی پنجاب کے میں واقع ڈیرہ بابا نانک صاحب کو پاکستانی حدود میں واقع دربار صاحب سے منسلک کرنے والی سرحدی راہداری کو کرتارپور کوریڈور (راہداری) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تقریباً پانچ کلومیٹر طویل ہے۔ سرحد سے گوردوارے تک کے راستے کو بہتر بنا دیا گیا ہے۔ سکھ مذہب کے پیروکار خصوصی ویزا سکیم کے تحت اسے استعمال کر سکیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
سکھوں یاتریوں کی آمد
بھارت سے آنے والے سکھ یاتری منگل پانچ نومبر کی شام ننکانہ صاحب پہنچے جہاں وہ اگلے دو دنوں تک اپنی مذہبی رسومات ادا کریں گے۔ نو نومبر کو سکھ یاتری کرتار پور صاحب میں ہونے والی مرکزی تقریب میں شرکت کے لیے جائیں گے جہاں پاکستانی وزیراعظم کرتارپور راہداری کا افتتاح کریں گے۔
تصویر: PID
بابا نانک صاحب کا 550واں جنم دن
بابا گورنانک کے پانچ سو پچاسویں جنم دن کی تقریبات ساری دنیا میں منائی جا رہی ہیں۔ ان تقریبات میں مرکزیت کرتارپور راہداری کا کھولنا قرار دیا گیا ہے۔ اس راہداری کا باضابطہ افتتاح نو نومبر کو پاکستانی وزیراعظم عمران خان کریں گے۔ دنیا بھر سے پچاس ہزار کے لگ بھگ سکھ یاتری ممکنہ طور پر اس تقریب میں شرکت کریں گے۔
تصویر: PID
کرتارپور راہداری اور عمران خان
عمران خان نے منصب وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے فوری بعد کرتارپور کوریڈور کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسے بابا گورو نانک کے پانچ سو پچاسویں جنم دن کے ساتھ بھی نتھی کیا گیا تھا۔ اس راہداری کی تعمیر کا سنگ بنیاد وزیراعظم عمران خان نے اٹھائیس نومبر سن 2018 کو رکھا تھا۔ اس کی تعمیر اور مہمان خانوں کے ساتھ ساتھ گوردوارے کی تزئین ریکارڈ مدت میں مکمل کی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
8 تصاویر1 | 8
اینس پوہل: کیا آپ وزیر اعظم مودی کے ساتھ ان معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں؟
عمران خان: جب میں وزیر اعظم بنا تو میں نے بھارتی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مکالمت کی کوشش کی۔ میں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں کہہ دیا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم اپنے باہمی اختلافات دور کرنے کے لیے دو قدم آگے بڑھیں گے۔ لیکن جلد ہی میں نے یہ دیکھ لیا کہ بھارت نے آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کی وجہ سے اس پر کوئی بہت اچھا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ یہ بات اس وقت بھی پوری طرح ظاہر ہو گئی تھی، جب بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کو اپنے ریاستی علاقے میں ضم کر لیا، حالانکہ اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کے مطابق بھی یہ خطہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک متنازعہ علاقہ ہے۔
اینس پوہل: لیکن وزیر اعظم خان! بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی تو انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال بہت اچھی نہیں ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟
عمران خان: دیکھیے، اس کا پتہ چلانا بہت ہی آسان ہے۔ ہم دنیا کے کسی بھی حصے سے کسی کو بھی پاکستان آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آئیے، پہلے اس طرف کے کشمیر کا دورہ کیجیے اور پھر بھارت کے زیر انتظام حصے کا۔ خود ہی فیصلہ کر لیجیے۔
اینس پوہل: مگر پھر بھی، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انتظامیہ کے خلاف مظاہروں کی اجازت بھی تو نہیں دی جاتی۔ تو یہ بھی تو پھر اظہار رائے کی آزادی نہ ہوئی۔
عمران خان: آزاد کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں اور اس حصے کے عوام ہی وہاں کی حکومت منتخب کرتے ہیں۔ کسی بھی دوسری انتظامیہ کی طرح، ان کی بھی مشکلات ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، ہماری طرف سے دنیا بھر سے مبصرین کو بلا لیجیے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مبصرین کشمیر کے پاکستانی حصے میں جا سکتے ہیں مگر انہیں کشمیر کے بھارتی حصے میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اینس پوہل: آپ کشمیری عوام کی آزادی کی وکالت کرتے ہیں، جیسا کہ آپ نے گزشتہ برس اقوام متحدہ میں بھی کیا، تو کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ بین الاقوامی برادری اس وقت آپ کے مطالبات پر زیادہ توجہ دے گی، جب آپ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی عوام کو مظاہروں کی اجازت دے دیں گے؟
عمران خان: کشمیر کے لوگوں کو ہی یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ پاکستان کسی بھی ریفرنڈم یا استصواب رائے کے لیے تیار ہے۔ یہ فیصلہ کشمیریوں کو خود کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزادی۔
اینس پوہل: کیا آپ یہ سوچتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کشمیر کے تنازعے پر بہت کم توجہ دے رہی ہے؟
عمران خان: افسوس، لیکن ایسا ہی ہو رہا ہے۔ آپ ہی سوچیے کہ ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہروں کو میڈیا کتنی توجہ دے رہا ہے۔ کشمیر کا المیہ تو اس سے بہت ہی بڑا ہے۔
عمران خان کی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اس وقت نیو یارک میں موجود ہیں۔ اس موقع پر ان کی دنیا کے کئی ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں جاری ہیں۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن سے ملاقات
عمران خان نے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے بڑھتے اسلامو فوبیا پر گفتگو کی۔ عمران خان نے نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہونے والے حملے کے بعد ملکی وزیر اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف کی۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مستقل مندوب کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق عمران خان نے جیسنڈرا آرڈرن کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے متعلق پاکستانی تحفظات سے بھی آگاہ کیا۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
رجب طیب ایردوآن سے ملاقات
عمران خان نے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن سے بھی ملاقات کی۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا بھی اعادہ کیا۔ صدر ایردوآن نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی موقف کی تائید کی۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کا اعادہ
پاکستانی وزیر اعظم نے ایرانی صدر حسن روحانی سے بھی ملاقات کی۔ عمران خان نے ایران کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں ایران کے ساتھ تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ عمران خان نے کشمیر کے معاملے پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کی جانب سے پاکستان کے موقف کی حمایت کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے دو طرفہ معاہدوں پر پیش رفت کو بڑھانے کا اعادہ کیا۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
اطالوی وزیر اعظم جوزیپے کونٹے
پاکستانی وزیر اعظم نے اطالوی وزیر اعظم جوزیپے کونٹے سے بھی ملے۔ دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ اور علاقائی معاملات پر گفتگو کی۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مستقل مندوب کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیر اعظم نے اطالوی وزیر اعظم کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی ابتر صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر چکے ہیں۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
جنرل اسمبلی کا 74واں سیشن
پاکستانی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں سیشن میں پاکستانی وفد کی سربراہی کی۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
6 تصاویر1 | 6
اینس پوہل: آپ کی رائے میں ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
عمران خان: بدقسمتی سے مغربی ممالک کے لیے ان کے تجارتی مفادات زیادہ اہم ہیں۔ بھارت ایک بڑی منڈی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آٹھ ملین کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اور جو کچھ بھارت میں مجموعی طور پر اقلیتوں کے ساتھ بھی، اس پر بین الاقوامی برادری کے رویے میں قدرے سرد مہری پائی جاتی ہے۔ بھارت کا شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) واضح طور پر اقلیتوں کے خلاف ہے، خاص طور پر بھارت کے 200 ملین مسلمانوں کے خلاف۔ ان تمام امور پر دنیا کے خاموش رہنے کی وجہ زیادہ تر تجارتی مفادات ہیں۔
اس کے علاوہ اسٹریٹیجک حوالے سے بھارت کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ چین کی موازن قوت بنے، تو اس لیے بھی ان دونوں تنازعات کے بارے میں عالمی رویے بالکل مختلف ہیں۔
انیس پوہل: مسٹر خان، اس بارے میں جرمنی اور یورپی یونین کیا کر سکتے ہیں؟
عمران خان: میری رائے میں جرمنی بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ جرمنی یورپ کا مضبوط ترین ملک ہے اور یورپی یونین کا بہت بڑا رکن ملک بھی۔ جب میں نے چانسلر میرکل سے بات کی تھی، تو میں نے انہیں ان امور کی وضاحت کی تھی، یہ کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے۔ اور انہوں نے دراصل اس بارے میں ایک بیان بھی دیا تھا، جب وہ بھارت کے دورے پر تھیں۔
اینس پوہل: افغان امن مذاکرات کی موجودہ صورت حال کیا ہے؟
عمران خان: میرے خیال میں ایک فائر بندی کی طرف پیش رفت جاری ہے۔ صدر اشرف غنی کے دوبارہ انتخاب کے بعد افغانستان میں نئی حکومت اقتدار میں آ چکی ہے۔ ہم امید کر رہے ہیں کہ امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔
افغانستان میں قیام امن سے وسطی ایشیا میں تجارت کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔ تب افغانستان ہمارے لیے بھی ایک اقتصادی راہداری بن جائے گا۔ جب افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا، تو اس کا فائدہ ہمارے اس صوبے خیبر پختونخوا کے عوام کو بھی پہنچے گا، جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔
اینس پوہل: آپ ظاہر ہے کہ امریکا کی مدد کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ موجودہ رابطے کتنے قریبی ہیں؟
عمران خان: پاکستان نے ان امن مذاکرات میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ طالبان نے کچھ لوگوں کو یرغمال بنا رکھا تھا اور پاکستان کی مدد سے دو مغربی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو گئی۔ اس لیے، ہمارا جتنا بھی اثر و رسوخ ہے، ہم اپنی پوری کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
اینس پوہل: آپ کشمیر اور بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بہت تنقید کرتے ہیں، لیکن جب چین اور ایغور مسلمانوں کی بات ہوتی ہے، تو آپ اتنے بلند آواز نہیں ہوتے۔ ایسا کیوں ہے؟ میں دیکھ رہی ہوں، کہ آپ خود کو مسلم دنیا کے مختلف ممالک کے مابین پل کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں، تو پھر آپ ایغور باشندوں پر جبر کے حوالے سے چین کے بارے میں زیادہ کھل کر بات کیوں نہیں کرتے؟
عمران خان: زیادہ تر دو وجوہات کی بنا پر۔ پہلی یہ کہ جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے، اس کا موازنہ اس کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جو کہا جاتا ہے کہ چین میں ایغور باشندوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ چین ہمیشہ ہی ہمارا بہت قریبی دوست رہا ہے۔ چین نے ان انتہائی مشکل حالات میں بھی ہماری بہت مدد کی، جب میری حکومت کو گزشتہ حکومت سے ورثے میں ایک پورا اقتصادی بحران ملا تھا۔ اس لیے ہم چین کے ساتھ مختلف امور پر نجی سطح پر تو بات کرتے ہیں لیکن عوامی سطح پر نہیں، کیونکہ یہ حساس معاملات ہیں۔
اینس پوہل: دو آخری سوال، آپ برطانیہ کی لیڈی ڈیانا کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ آپ ان کے چھوٹے بیٹے پرنس ہیری اور ان کی اہلیہ میگن مارکل کے اس فیصلے کے بارے میں کیا کہیں گے جس کے تحت وہ برٹش رائل فیملی میں اپنے شاہی کردار سے دستبردار ہو جائیں گے؟
عمران خان: مجھے پاکستان میں اتنے زیادہ مسائل پر توجہ دینا ہوتی ہے کہ مجھے یہ کوئی بہت بڑا موضوع لگا ہی نہیں۔ دیکھا جائے، تو یہ ان کی اپنی زندگی ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی اس طرح گزارنا چاہتے ہیں، تو کسی کو بھی اس میں کوئی مداخلت بھلا کیوں کرنا چاہیے؟
اینس پوہل: کیا آپ کے خیال میں ڈیانا اس شاہی جوڑے کے فیصلے کو سمجھ سکتیں؟
عمران خان: میرا خیال ہے، ہاں۔ ویسے میں نے اس بات پر زیادہ غور نہیں کیا۔ اگر کوئی نوجوان جوڑا اس طرح اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے، تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔
اینس پوہل: بہت شکریہ، مسٹر پرائم منسٹر
ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اینس پوہل نے عمران خان کے ساتھ یہ انٹرویو اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس میں کیا۔
شامل شمس، اسلام آباد (م م / ع ا)
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔