ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے پابندیاں نہیں اٹھائیں گے، ٹرمپ
26 جنوری 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن حکومت ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے اس کے خلاف عائد کردہ پابندیاں نہیں اٹھائے گی۔ ٹرمپ نے یہ بات بظاہر ایرانی وزیر خارجہ کے ایک جرمن جریدے کے ساتھ انٹرویو کے جواب میں کہی۔
اشتہار
دبئی سے اتوار چھبیس جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کل رات گئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ واشنگٹن حکومت کا تہران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے لیے ایران کے خلاف عائد کردہ امریکی پابندیاں اٹھا لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے ٹوئٹر پر یہ پیغام پہلے انگریزی زبان میں اور پھر فارسی میں کی گئی ایک ٹویٹ میں دیا۔
اسماعیل قاآنی، سلیمانی کے جانشیں
ایرانی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی تین جنوری کو ایک امریکی فضائی حملے میں ہلاکت کے بعد اس فورس کی ذمہ داری جنرل اسماعیل قاآنی سنبھال چکے ہیں۔ ان کے تجربے اور کردار کے بارے میں تفصیلات اس پکچر گیلری میں دیکھیے۔
قاآنی کا ماضی
اسماعیل قاآنی تین اگست 1957ء کو مشہد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی فوجی تربیت تہران کے علاوہ مشہد سے بھی حاصل کی۔ انہوں نے 1980ء میں ایرانی انقلابی گارڈز میں شمولیت اختیار کی اور 1981ء میں انہوں ایران میں قائم امام علی آفیسرز اکیڈمی میں ملٹری ٹریننگ حاصل کی۔
63 سالہ اسماعیل قاآنی طویل عرصے سے قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کے نائب کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔انہیں 1997ء میں انقلابی گارڈز کی قدس فورس کا ڈپٹی کمانڈر مقرر کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سلیمانی ایران کے مغربی ممالک سے متعلق معاملات کو دیکھتے تھے جبکہ قاآنی شمالی ممالک سے متعلق معاملات کے انچارج رہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ایران عراق جنگ میں قاآنی کا کردار
قاسم سلیمانی کی طرح اسماعیل قاآنی نے بھی ایران اور عراق کے درمیان 1980-88 کی آٹھ سالہ جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ جنگ کے خاتمے کے فوری بعد انہوں نے قدس فورس میں شمولیت اختیار کر لی اور افغانستان اور ترکمانستان کی سرحدی علاقوں سے متعلق معاملات کی نگرانی کی۔
تصویر: Tasnim
قدس فورس میں تین دہائیوں کا تجربہ
ایران عراق جنگ کے فوری بعد انہوں نے ایرانی انقلابی گارڈز کی قدس فورس میں شمولیت اختیار کر لی اور ایک مقامی کمانڈر کے طور پر انہوں نے افغانستان سے متعلق معاملات کی ذمہ داری سنبھالی۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
امریکی پابندیاں
قدس فورس میں ان کے کردار اور دنیا بھر میں اس فورس کے آپریشنز کے لیے فنڈنگ کے تناظر میں امریکا نے اسماعیل قاآنی پر 2012ء میں پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
’شہید سلیمانی کا بدلہ لیا جائے گا‘
جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی فضائی حملے میں ہلاکت کے بعد اسماعیل قاآنی نے کہا تھا کہ شہید سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیا جائے۔ انہوں نے اسے قدس فورس کی ذمہ داری قرار دیا۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی قاآنی کو قدس فورس کا سربراہ مقرر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی ذمہ داریاں وہی رہیں گی جو جنرل سلیمانی کی تھیں۔
تصویر: Tasnim
6 تصاویر1 | 6
انہوں نے کہا، ''ایرانی وزیر خارجہ (جواد ظریف) کہتے ہیں کہ ایران امریکا کے ساتھ مکالمت چاہتا ہے۔ لیکن اس کی خواہش ہے کہ پہلے پابندیاں ختم کی جائیں۔ نہیں، شکریہ!‘‘
امریکی صدر کی اس ٹویٹ کے جواب میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی آج اتوار کے روز ایک جوابی ٹویٹ کی ، جس میں انہوں نے جمعہ چوبیس جنوری کے روز جرمن ہفتہ روزہ جریدے 'ڈئر اشپیگل‘ کو دیے گئے اپنے انٹرویو کے ایک اقتباس کا حوالہ بھی دیا۔
اس انٹرویو میں ظریف نے کہا تھا کہ تہران اب بھی امریکا کے ساتھ مذاکرات کر سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے واشنگٹن تہران پر عائد کردہ پابندیاں اٹھائے۔
جواد ظریف نے اپنی ٹویٹ میں کہا، ''ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے اچھا مشورہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے خارجہ پالیسی تبصروں اور فیصلوں کی بنیاد حقائق کو بنائیں، نہ کہ (نشریاتی ادارے) فوکس نیوز کی سرخیوں کو یا پھر اپنے فارسی مترجمین کی باتوں کو۔‘‘
امریکا اور ایران کے مابین عشروں سے جاری کشیدگی اسی مہینے تین جنوری کو اس وقت ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی، جب عراقی دارالحکومت میں کیے گئے ایک ڈرون حملے میں امریکا نے ایران کے پاسداران انقلاب کی سپاہ قدس کے جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس امریکی کارروائی کے چند روز بعد، جس کی وجہ سے ایران امریکا کشیدگی گزشتہ چند دہائیوں کے دوران اپنی نئی انتہا پر پہنچ گئی تھی، ایران نے عراق میں تعینات امریکی فوجی دستوں کے ایک اڈے پر میزائلوں سے حملے بھی کیے تھے۔
م م / ع ح (روئٹرز، اے ایف پی)
ایران میں خامنہ ای مخالف مظاہرے
ایرانی حکومت کی جانب سے یوکرائنی ہوائی جہاز کو غلطی سے مار گرانے کو تسلیم کرنے پر عوام نے اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے دارالحکومت ایران سمیت کئی دوسرے شہروں میں کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NurPhoto/M. Nikoubaz
تہران میں مظاہرے
ایرانی دارالحکومت تہران میں سینکڑوں افراد حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔ یہ مظاہرین ایرانی حکومت کے خلاف زور دار نعرے بازی کرتے رہے۔ ان مظاہرین کو بعد میں ایرانی پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
امیر کبیر یونیورسٹی
تہران کی دانش گاہ صنعتی امیر کبیر (Amirkabir University of Technology) ماضی میں تہران پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ گیارہ جنوری سن 2020 کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اس یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/R. Fouladi
ایرانی مظاہرین کا بڑا مطالبہ
یونیورسٹی طلبہ کا سب سے اہم مطالبہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی دستبرداری کا تھا۔ ان مظاہرین نے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مظاہروں کا نیا سلسلہ
گیارہ جنوری کو مظاہرے تہران کے علاوہ شیراز، اصفہان، حمدان اور ارومیہ میں بھی ہوئے۔ امکان کم ہے کہ ان مظاہروں میں تسلسل رہے کیونکہ پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہروں کو ایرانی حکومت نے شدید انداز میں کچل دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
برطانوی سفیر کی تہران میں گرفتاری و رہائی
ایرانی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق سفیر کی گرفتاری مظاہروں میں مبینہ شرکت کا نتیجہ تھی۔ ایرانی دارالحکومت تہران میں متعین برطانوی سفیر راب میک ایئر نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے مظاہرے میں قطعاً شریک نہیں تھے۔ سفیر کے مطابق وہ یونیورسٹی کے باہر یوکرائنی مسافروں کے لیے ہونے والے دعائیہ تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
تصویر: gov.uk
یوکرائنی طیارے کے مسافروں کی یاد
جس مسافر طیارے کو غلطی سے مار گرایا گیا تھا، اُس میں امیر کبیر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ بھی سوار تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے مظاہرے کے دوران اُن کی ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
سابق طلبہ کی یاد میں شمعیں جلائی گئیں
تہران کی امیرکبیر یونیورسٹی کے طلبہ نے یوکرائنی ہوائی جہاز میں مرنے والے سابقہ طلبہ اور دیگر ہلاک ہونے والے ایرانی مسافروں کی یاد میں یونیورسٹی کے اندر شمعیں جلائیں۔ یوکرائنی مسافر بردار طیارے پر نوے سے زائد ایرانی مسافر سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مہدی کروبی کا مطالبہ
ایران کے اہم اپوزیشن رہنما مہدی کروبی نے بھی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خامنہ ای یوکرائنی کمرشل ہوائی جہاز کی تباہی کے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کروبی ایران میں اصلاحات پسند گرین موومنٹ کے رہنما ہیں۔
تصویر: SahamNews
ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی مظاہرین
ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران حکومت خبردار کیا ہے کہ وہ ان مظاہرین پر ظلم و جبر کرنے سے گریز کرے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ بہادر ایرانی مظاہرین کے ساتھ ہیں جو کئی برسوں سے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایرانی حکومت پرامن مظاہرین کا قتل عام کر سکتی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ دنیا کی اس پر نظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہرے
گزشتہ برس نومبر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی بڑے ایرانی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو سخت حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔ یہ ایران میں چالیس سالہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے شدید مظاہرے تھے۔ بعض ذرائع اُن مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ بیان کرتے ہیں۔ تصویر میں استعمال کیے جانے والے کارتوس دکھائے گئے ہیں۔