1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کے صدارتی امیدواروں کے مابین پہلا مباحثہ

18 جون 2024

چھ صدارتی امیدواروں نے پیر کے روز ایران کے اقتصادی مسائل پر چار گھنٹے بحث کی، جسے قومی ٹی وی پر براہ راست نشر کیا گیا۔ دس دن بعد ہونے والے انتخابات سے قبل یہ پانچ مباحثوں کے سلسلے کا پہلا مباحثہ تھا۔

چھ صدارتی امیدواروں نے پیر کے روز ایران کے اقتصادی مسائل پر چار گھنٹے بحث کی
چھ صدارتی امیدواروں نے پیر کے روز ایران کے اقتصادی مسائل پر چار گھنٹے بحث کیتصویر: Morteza Fakhri Nezhad/IRIB/AP/picture alliance

سابق صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد ان کے جانشین کے انتخاب کے لیے 28 جون کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ عہدہ صدارت کے لیے چھ امیدواروں میں سے پانچ سخت گیر سمجھے جاتے ہیں جب کہ چھٹے امیدوار قانون ساز مسعود پیزشکیان، پیشے سے ماہر امراض قلب ہیں اور انہیں بعض اصلاح پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔

ایرانی صدارتی الیکشن کے لیے چھ امیدوار کون کون؟

ایران میں چھ صدارتی انتخابی امیدواروں کے ناموں کی منظوری

پیر کے روز ہونے والا مباحثہ، جس کو سرکاری ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا گیا، چار گھنٹے تک چلا۔ اس مباحثے میں امیدواروں کو امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے ایرانی معیشت کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے اپنی تجاویز اور منصوبوں پر اظہار خیال کرنا تھا۔ یہ مباحثہ دس روز بعد ہونے والی پولنگ سے پہلے اسی طرح کے پانچ مباحثوں کے سلسلے کا پہلا تھا۔

امیدواروں میں سے پانچ سخت گیر سمجھے جاتے ہیںتصویر: donya-e-eqtesad

امیدواروں نے کیا کہا؟

تمام چھ صدارتی امیدواروں نے وعدہ کیا کہ صدر منتخب ہو جانے پر وہ ایران پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کی کوشش کریں گے اور اصلاحات متعارف کرائیں گے، لیکن کسی بھی امیدوار نے ان کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ ان امیدواروں نے مہنگائی، بجٹ خسارہ، ایران میں رہائشی مکانات کے مسائل اور بدعنوانی سے لڑنے کے طریقوں پر بھی بات کی۔

 

ایران: صدارتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا آغاز

 28 جون کو صدارتی انتخابات ایک ایسے وقت ہورہے ہیں جب ایران کے تیزی سے آگے بڑھنے والے جوہری پروگرام، یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں ماسکو کو ہتھیار فراہم کرنے اور حکومت مخالفین کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاون کی وجہ سے تہران اور مغرب کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

امیدواروں میں سے پانچ سخت گیر سمجھے جاتے ہیں جب کہ چھٹے امیدوار 69 سالہ قانون ساز مسعود پیزشکیان، ہارٹ سرجن ہیں اور انہیں کچھ اصلاح پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔

کس کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں؟

سب سے نمایاں امیدوار 62 سالہ محمد باقر قالیباف ہیں، جو تہران کے سابق میئر ہیں اور ملک کی ایلیٹ فورس پاسداران انقلاب سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔

قالیباف نے پاسداران انقلاب کے سابق جنرل کے طورپر 1999 میں ایران یونیورسٹی کے طلبا ء کے خلاف پرتشدد کریک ڈاون کیا تھا۔ انہوں نے سن 2003 میں ملک کے پولیس سربراہ کے طور طلباء کے خلاف براہ راست گولیاں چلانے کا حکم بھی دیا تھا۔

صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والوں میں ایران کے نائب صدر53 سالہ امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی، تہران کے موجودہ میئر 58 سالہ علی رضا زکانی بھی شامل ہیں۔ سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن 58 سالہ سعید جلیلی اور 64 سالہ نسبتاً اعتدال پسند عالم دین مصطفیٰ پور محمدی بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔

اہم ریاستی امور پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی رائے ہی حتمی ہوتی ہےتصویر: Iranian Supreme Leader's Office/ZUMA/IMAGO

حتمی رائے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی ہوتی ہے

قالیباف نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک ''مضبوط'' صدرثابت ہوں گے۔ جو غریبوں کی حمایت کریں گے، معیشت کا بہتر انتظام کریں گے اور سفارتی ذرائع سے پابندیاں ہٹانے کی کوشش کریں گے۔

پیزیشکیان نے کہا کہ پابندیاں ایک ''تباہی'' ہیں۔ انہوں نے انٹرنیٹ پر کم پابندیوں پر بھی زور دیا۔ ایران نے طویل عرصے سے فیس بک، ایکس، انسٹاگرام، ٹیلی گرام اور دیگر بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور پیغام رسانی کے نظام کو بنیادی طور پر سیکورٹی خدشات کی بنا پر بلاک کر رکھا ہے۔

تمام امیدواروں نے ملک کی کرنسی ریال کو مضبوط کرنے کا عہد کیا جو ڈالر کے مقابلے میں 580,000 تک گر گئی ہے۔ سنہ 2015 میں جب ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پررو ک لگانے کے بعد پابندیاں ہٹانے کا معاہدہ ہوا تھا، اس و قت ایرانی ریال ڈالر کے مقابلے میں 32000 تھا۔

تمام چھ امیدواروں نے جوہری معاہدے پر کوئی بات نہیں کی۔ دراصل جوہری، خارجہ پالیسی، خلائی اور فوج پروگراموں سمیت اہم ریاستی امور پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی رائے ہی حتمی ہوتی ہے۔

اصلاح پسند رہنما سابق صدر محمد خاتمی اور سابق وزیر خارجہ جواد ظریف جیسے بعض رہنما پیزشکیان کے حامی ہیں۔ لیکن ان کے پارلیمانی حلقے تبریز میں پچھلے آٹھ برسوں کے دوران ان کے حق میں ووٹروں کی تعداد 36 فیصد سے کم ہوکر 24 فیصد رہ گئی ہے۔

رئیسی کی موت سے مشرق وسطیٰ میں ایران کا اثر و رسوخ متاثر نہیں ہو گا

02:47

This browser does not support the video element.

 ج ا/   ص ز (اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں