ایران کے لیے جاسوسی کا شبہ، جرمن فوج کا اہلکار گرفتار
16 جنوری 2019
جرمن دفتر استغاثہ کے مطابق ایرانی خفیہ اداروں کے لیے جاسوسی کرنے کے شبے میں ملکی فوج سے وابستہ ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ افغان نژاد جرمن شہری فوج کے ساتھ بطور مترجم وابستہ تھا۔
اشتہار
جرمنی کے وفاقی دفتر استغاثہ کے مطابق ایک افغان نژاد جرمن شہری کو ایران کے خفیہ اداروں کے لیے جاسوسی کرنے کے شبے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ دفتر استغاثہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں پچاس سالہ شخص کی شناخت عبدالحمید ایس کے نام سے کی گئی ہے۔
جرمن خفیہ ادارے کے ایک اہلکار کے مطابق، ’’عبدالحمید ایس پر ایک غیر ملکی خفیہ ادارے کے لیے کام کرنے کا شدید شبہ ہے۔‘‘ یہ شخص جرمن فوج کے ساتھ بطور مترجم اور ثقافتی مشیر کام کر رہا تھا۔
موقر جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس شخص کی رسائی حساس معلومات تک تھی جن میں افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی کے بارے میں معلومات بھی شامل ہیں۔ جریدے کے مطابق عبدالحمید ایس کئی برسوں سے ایرانی خفہ اداروں کے لیے کام کر رہا تھا۔
جرمن فوج عام طور پر افغانستان میں گشت کے دوران مقامی زبان پر عبور رکھنے والے افراد کو مترجم کے طور پر اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ اس شخص کو تاہم جرمنی میں حراست میں لیا گیا ہے۔
جرمن اور یورپی خفیہ ادارے ایران کی جانب سے جاسوسی کے بڑھتے واقعات پر اپنے تحفظات کا اظہار ماضی میں بھی کر چکے ہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں جرمن خفیہ ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایران کی سائبر حملوں کی استعداد بہتر ہوئی ہے اور سائبر حملے جرمن کمپنیوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
جرمن اداروں میں غیر ملکی جاسوسوں کی موجودگی کے واقعات ماضی میں بھی شہ سرخیوں کی زینت بنتے رہے ہیں۔ سن 2016 میں مارکوس رائشل نامی ایک سابق انٹیلیجنس افسر کو امریکی اور روسی خفیہ ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کرنے کے جرم میں سزا دی گئی تھی۔
ش ح/ ع ح (ڈی پی اے، اے پی)
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔