بھارتی وزیر خارجہ ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کرنے والے سب سے پہلے غیر ملکی رہنما تھے۔ انہوں نے تہران میں اپنے ایرانی ہم منصب سے بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔
اشتہار
بھارت نے نو منتخب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی حلف برادری تقریب میں شرکت کرنے کی دعوت قبول کر لی ہے اور جلد ہی یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ان کی حلف برداری تقریب میں کون بھارتی رہنما شریک ہو گا۔ اطلاعات کے مطابق ایران نے بہت کم ممالک کو اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
بدھ سات جولائی کو ماسکو جاتے ہوئے بھارتی وزير خارجہ ایس جے شنکر نے تہران میں نو منتخب صدر سید ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی تھی اور انہیں بھارتی وزير اعظم نریندر مودی کا ذاتی پیغام پہنچایا تھا۔ خبروں کے مطابق مودی نے ایران کے نو منتخب صدر کو اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ ایک مکتوب بھیجا۔
بھارتی وزير خارجہ کا تہران کا یہ مختصر سا دورہ اچانک ہوا تھا جس کی پہلے سے کسی کو بھی اطلاع نہیں تھی۔ اسی موقع پر انہوں نے اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے بھی ملاقات کی تھی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق حکومت نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ کس حکومتی اہلکار کو تہران روانہ کیا جائے گا تاہم حکومت کا ماننا ہے کہ اقتدار کی تبدیلی کے بعد، ’’ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا یہ بہترین موقع ہو گا۔‘‘
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے مکتوب میں ایران کے نو منتخب صدر کو بھارت آنے کی دعوت دی ہے۔
بھارتی وزير خارجہ ایس جے شنکر نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں ابراہیم رئیسی سے ملاقات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا تھا، ’’بھارت کے لیے ان کی گرم جوشی اور اچھے جذبات کے لیے میں ان کی تعریف کرتا ہوں۔ ہمارے دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے اور علاقائی اور عالمی امور میں تعاون بڑھانے کے لیے ہم ان کے پختہ عزم کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔‘‘
حلف برداری کی تقریب پانچ اگست کو ہونا ہے اور اتفاق سے اسی دن کشمیر کی دفعہ 370 کے خاتمے کو دو برس پورے ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران نے بھی کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کے ان اقدامات پر احتجاج کیا تھا اور بھارت کے یکطرفہ فیصلوں پر دبے الفاظ میں نکتہ چینی بھی کی تھی۔
بھارتی وزير خارجہ ایس جے شنکر نے تہران میں اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے بھی خطے میں بدلتی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا۔
بھارتی میڈیا کے ایک بڑے حلقے کے مطابق اس بات چيت میں تیزی سے بدلتی ہوئی افغانستان کی صورت حال پر خاص توجہ دی گئی اور چابہار بندر گاہ پراجیکٹ پر تبادلہ خیال کیا گيا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق دونوں نے بین الافغان مذاکرات کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اس کی مدد سے افغانستان میں جامع سیاسی شراکت داری کے امکان روشن ہو سکیں۔
ایشیائی احتجاجی تحریکوں میں خواتین کا قائدانہ کردار
بھارت، افغانستان، ایران اور پاکستان سمیت متعدد ایشائی ممالک میں حکومت مخالف مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں کے دوران اب خطرات اور حکومتی دباؤ کے باوجود خواتین صف اول میں کھڑی نظر آتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca
خواتین ’امتیازی سلوک‘ کے قانون کے خلاف
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ’امتیازی سلوک کے حامل‘ نئے شہریت ترمیمی بل نے سول سوسائٹی کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور خواتین ان مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ حکومت کے لیے خواتین کی آواز کو دبانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Javed
’فاشزم‘ کے خلاف جنگ
بھارت میں یونیورسٹی کی طالبات سڑکوں پر نکل چکی ہیں۔ ان کا نعرہ ہے کی سیکولر بھارت میں ’غیرآئینی‘ اقدامات کی مخالفت کی جائے گی۔ یہ مظاہرے صرف شہریت ترمیمی بل ہی نہیں بلکہ فاشسٹ معاشرتی رجحانات، بدانتظامی، مذہبی انتہاپسندی اور پولیس کی بربریت کے خلاف بھی ہیں۔
تصویر: DW/M. Krishnan
حجاب سے لاتعلقی
گزشتہ چند برسوں سے ایران کی قدامت پسند حکومت کو خواتین چیلنج کر رہی ہیں اور ایسے احتجاجی مظاہروں کے دوران حجاب اتارنے کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ’مغرب سے متاثر‘ ایسی خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود خواتین کا مختلف شہروں میں مختلف طریقوں سے احتجاج جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
حکومت کے مدمقابل
سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایرانی خواتین کو پدرانہ دباؤ کا سامنا ہے۔ تہران حکومت نے ہمیشہ ایسے مظاہروں کو دبایا ہے، جہاں مساوی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی بات کی جاتی ہو۔ لیکن تمام تر حکومتی حربے خواتین کے حوصلے پست نہیں کر سکے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Roberson
’اب بہت ہو چکا‘
پاکستان میں جو خواتین مساوی حقوق کی بات کرتی ہیں، زیادہ تر لوگ انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ انہیں ’مغربی ایجنٹ‘ اور این جی او مافیا‘ سمجھتا ہے۔ ایسے الزامات کے باوجود حالیہ چند برسوں سے ان خواتین کی آواز معاشرے میں سنی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Raza
بڑی سماجی تحریک کی جانب
ابھی تک پاکستان میں موجود خواتین کے حقوق کی تنظیمیں چائلڈ میرج، مساوی حقوق، گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل جیسے موضوعات پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے سے یہ جمہوریت نواز مظاہروں میں بھی شریک ہو رہی ہیں۔ گزشتہ برس اسٹوڈنٹ یونینز کی بحالی کے لیے ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہرے اس کی مثال ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مغرب نے نظرانداز کیا؟
طالبان اور امریکا افغان جنگ کے خاتمے کے لیے ایک ممکنہ امن ڈیل کے قریب تر ہوتے جا رہے۔ لیکن افغان خواتین پریشان ہیں کہ انہیں حالیہ چند برسوں میں ملنے والی محدود آزادی اور حقوق دوبارہ سلب ہو سکتے ہیں۔
تصویر: DW/H. Sirat
7 تصاویر1 | 7
اتفاق کی بات یہ ہے کہ سات جولائی بدھ کے روز جب بھارتی وزير خارجہ تہران میں تھے تو اسی دن ایران طالبان کے سفیروں اور کابل حکومت کے عہدیداروں کے درمیان بات چیت کی میزبانی کر رہا تھا۔ اس بات چیت میں افغانستان کے سابق نائب صدر یونس قانونی بھی موجود تھے۔
بھارت میں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ اس موقع کی مناسبت سے ہی تہران پہنچے ہوں گے اور ایران کے ذریعے طالبان قیادت تک یا تو رسائی کی کوشش کی ہوگی یا پھر طالبان تک اپنا موقف پہنچایا ہو گا۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کرنے والے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں سے اپیل کی تھی کہ وہ، ”اپنے ملک کے مستقبل کے لیے کوئی سخت فیصلہ کر لیں۔‘‘
بھارت نے افغانستان میں کافی کچھ سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اب جبکہ بیرونی افواج وہاں سے واپس جا رہی ہیں ایسا لگتا ہے کا طالبان دوباہ اقتدار میں واپس آ سکتے ہیں۔ بھارت اسی صورت حال سے کافی کشمکش میں مبتلا ہے۔
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔