جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران سن دو ہزار پندرہ کی عالمی جوہری ڈیل کو بچانے کی کوششوں کو ٹال رہا ہے۔ ہائیکو ماس نے خبردار کیا ہے کہ اس ڈیل کی بحالی کا آپشن زیادہ دیر تک موجود نہیں رہے گا۔
اشتہار
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے جمعے کے دن کہا کہ تہران حکومت عالمی جوہری ڈیل کی بحالی کی کوششوں کو سنجیدہ نہیں لے رہا۔ انہوں نے کہا کہ سن دو ہزار پندرہ میں طے پانی والی اس تاریخی ڈیل کو بچانے کی کوششوں میں تاخیر سے معاملات مزید الجھ سکتے ہیں۔
ماس نے خبردار کیا کہ اگر ایران اس حوالے سے تاخیر کرتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ مسقتبل میں اس کے پاس اس ڈیل کی بحالی کا آپشن نہ رہے۔
کثیر الاشاعتی مؤقر جرمن ہفت روزہ ڈیئر اشپیگل سے گفتگو میں ماس نے مزید کہا، ''مجھے یہ دیکھ کر بے چینی ہو رہی ہے کہ ایک طرف سے ایران ویانا میں اس حوالے سے بحال ہونے والے مذاکراتی عمل کو مؤخر کر رہا ہے اور دوسری طرف اس ڈیل کے بنیادی نکات سے مزید دوری اختیار کرتا جا رہا ہے۔‘‘
ایران نے اس عالمی جوہری ڈیل کو بچانے کی خاطر اپریل میں مذاکرات کو عمل شروع کیا تھا۔ اس ڈیل کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں میں کمی لانا تھی، جس کے بدلے عالمی طاقتوں نے اس پر عائد پابندیوں کو مرحلہ وار کم کرنا تھا۔
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
امریکا کی واپسی
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن دو ہزار اٹھارہ میں 'جوائنٹ کمپری ہینسَو پلان آف ایکشن‘ JCPOA نامی اس ڈیل سے یک طرفہ طور پر علیحدگی اختیار کرلی تھی جبکہ ان کی انتظامیہ نے ایران پر پہلے سے عائد پابندیوں کو بھی بحال کر دیا تھا۔
تاہم امریکی انتظامیہ میں تبدیلی کے بعد صدر جو بائیڈن نے ایران کے ساتھ سفارتکاری کا عندیہ دے رکھا ہے۔ ویانا میں ہونے والے نئے مذکرات میں امریکا بالواسطہ طور پر شامل بھی ہے۔ جمعرات کے دن امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی کہا تھا کہ مذاکرات کا یہ راستہ زیادہ دیر کھلا نہیں رہے گا۔
اشتہار
ایران میں اقتدار کی منتقلی
تاہم تہران حکومت حسن روحانی کی سبکدوشی اور نئے صدرابراہیم رئیسی کے اقتدار سنبھالنے کے انتظار میں ہے۔ ایران میں ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے رئیسی اگست کے آغاز میں صدر کے عہدے کا حلف اٹھا لیں گے۔
ہائیکو ماس کے مطابق وہ ایران میں سیاسی تبدیلی کے بعد اس کے مذاکرات عمل میں شامل ہونے کے منتظر رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس مذاکراتی عمل کی بحالی چاہتے ہیں اور پختہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ عمل تمام فریقین کے مفاد میں ہے۔
ہائیکو ماس نے البتہ ساتھ ہی کہا، ''ایک بات واضح ہے کہ یہ آپشن ہمارے پاس ہمیشہ موجود نہیں رہے گا۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق اس وقت بال ایران کی کورٹ میں ہے اور امریکا ویانا مذاکرات کی طرف لوٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ ایران پر عائد امریکی پابندیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے اس ملک کو شدید اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔
ع ب / ع ت (خبر رساں ادارے)
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔