ایران کے کروڑ پتی علماء، فوج اور زرمبادلہ کے حصول کی جنگ
9 جنوری 2020
ایرانی مسلح افواج میں معمول کی فوج کے ساتھ پاسداران انقلاب کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ پاسدارانِ انقلاب کو مسلح ایلیٹ فورس ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی اعتبار سے بھی بہت مستحکم خیال کیا جاتا ہے۔
اشتہار
ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کی ایک تہائی اقتصادیات بشمول کاروباری اداروں اور مذہبی فاؤنڈیشنوں پر ایرانی ملائیت اور پاسداران انقلاب کو کنٹرول حاصل ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ امریکا نے گزشتہ برس پاسدارانِ انقلاب کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔
پاسداران انقلاب کے ذیلی کمانڈو دستے قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کا فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لیا تو اسے انہوں نے ایک دفاعی اقدام قرار دیا تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی کو ایک امریکی ڈرون حملے میں تین جنوری کو بغداد ایئر پورٹ پر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ایران میں مقتول جنرل سلیمانی کو بہت معتبر حیثیت حاصل تھی۔
بہزاد نباوی ایران کے اصلاح پسند سیاستدانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ ایرانی پارلیمنٹ کے سابق ڈپٹی اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ نباوی کا خیال ہے کہ ریاست کے ساٹھ فیصد اثاثے مختلف چار تنظیموں کے قبضے میں ہے۔ ان چار تنظیموں میں درج ذیل ادارے شامل ہیں۔
خاتم الانبیا کنسٹرکشن ہیڈکوارٹرز: یہ ادارہ پاسدارانِ انقلاب سے منسلک ہے۔ اسے پاسدارانِ انقلاب کا اقتصادی بازو خیال کیا جاتا ہے۔
ستاد اجرائی فرمان امام خمینی: یہ ادارہ سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ اس کے زیر کنٹرول کئی سرمایہ کاری کے منصوبے ہیں۔ ان میں تیل اور ٹیلی کمیونیکیشنز کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
بنیادٍ مستضعفانِ انقلاب اسلامی: یہ ادارہ بھی اسلامی انقلاب کے بعد قائم کیا گیا تھا اور اس کے کنٹرول میں رضا شاہ پہلوی دور کے سرکاری ملازمین کی ضبط کی گئی جائیدادیں ہیں۔ ادارے کو اِن جائیدادوں سے سالانہ بنیاد پر کثیر سرمایہ کرائے کی مد میں ملتا ہے۔
آستانہ قدس رضوی: یہ امام رضا کے مزار کا نگران ادارہ ہے اور اس کے کنٹرول میں پچاس سے زائد مختلف کمپنیاں اور فیکٹریاں ہیں۔
ان چار کمنپیوں کے کنٹرول میں اثاثوں سے متعلق پاسدارانِ انقلاب نے ایرانی عدالت میں ایک شکایت دائر کی تھی کہ اصلاح پسند سیاستدان مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں جب کہ ان چاروں اداروں کے اثاثوں کا مجموعی حجم ایرانی معیشت میں دو فیصد سے بھی کم ہے۔ اس شکایت کی تفصیلات آن لائن میگزین ایران جرنل میں شائع ہوئی تھیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران کو کرپشن اور اقربا پروری کی شدت کا سامنا ہے۔ اس معاملے کے حوالے سے ایرانی صدر حسن روحانی اپنی کئی تقاریر میں حوالے دیتے رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایرانی ملائیت اور پاسداران انقلاب اتنے مضبوط ہیں کہ ملکی صدر بظاہر بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
ایران کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے۔ ان میں مسلسل کمی صدر ٹرمپ کی دوبارہ نافذ کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ گزشتہ برس بارہ نومبر کو صدر حسن روحانی نے اقتصادی مشکلات کے تناظر میں کہا تھا کہ ایرانی ریاست کو ایمرجنسی کا سامنا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ایران کو تیل کی فروخت میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔
اندریاس بیکر (ع ح ⁄ ب ج)
متاثرکُن اور شاندارایرانی ثقافتی مقامات
بہت سے ماہرین تاریخ و آثار قدیمہ ایران کو انسانی تہذیب کا گہوارہ قرار دیتے ہیں۔ ایران کے تاریخی ثقافتی مراکز اس ملک اور خطے کے شاندار ماضی کا احوال بیان کرتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تخت جمشید
ہخامنشی شاہی خاندان نے تخت جمشید یا پرسیپولس نامی شہر کی تعمیر 520 قبل از مسیح شروع کی تھی۔ یہ قدیم پارس تہذیب کا مرکز تھا۔ سکندر اعظم یونانی نے ہخامنشی خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ اپنی عسکری مہم جوئی کے دوران کیا۔ اس کے کھنڈرات میں محلات، مقبروں، عمارتوں کے ستون اور قدیم نوادرات قابل تعریف و توصیف ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
چغا زنبیل
سلطنت ایلام کے بادشاہ انتاشا ناپیرشا نے چغا زنبیل نامی شہر تیرہویں صدی قبل از مسیح میں تعیمر کیا تھا۔ میسوپوٹیمیا کی ریاستوں کے ساتھ جنگ و جدال ہی اس کی تعمیر کی وجہ تھی۔ اس قدیمی شہر کے وسط میں ایران میں واقع قدیم ترین مذہبی عبادت گاہ ہے۔ یہ تاریخ مقام ایرانی صوبے خوزستان میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. D. Kley
پاسارگاد
یہ شیراز شہر سے نوے کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہ ہخامنشی بادشاہ سائرس اعظم کے دور میں سلطنت کا صدرمقام تھا۔ چھٹی صدی عیسوی اس کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس قدیمی شہر میں زیرزمین آب پاشی کا نظام قابل تعریف ہے۔ تصویر میں سائرس سوم کا مقبرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBroker/S. Auth
سینٹ تادؤس کی خانقاہ
یہ کلیساٴ سیاہ کے طور پر بھی مشہور ہے اور یہ آرمینیائی خانقاہ ہے۔ یہ ایرانی صوبے مغربی آذربائیجان میں واقع ہے۔ آرمینیائی مسیحی کمیونٹی کا خیال ہے کہ یہ یہودہ تادؤس کے نام منصوب کلیسا پہلی بار اڑسٹھ عیسوی میں تعمیر ہوئی تھی۔ ایک زلزلے میں تباہی کے بعد اس کو چودہویں صدی میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ آرمینیائی اور ایرانی مسیحی کمیونٹی کے علاوہ کئی اور ممالک کے مسیحی زائرین یہاں آتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تبریز کا بازار
ایرانی شہر تبریز مشہور سلک روڈ پر واقع ہے۔ یہ برسوں سے کارباری اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تاریخی بازار کے ساتھ ساتھ مذہبی اور تعلیمی مراکز کا شہر بھی تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے طویل احاطہ بازار تیرہویں صدی عیسوی کی نشانی ہے۔ تبریز شہر صفوی خاندان کی سلطنت کا دارالحکومت اور اسی دور میں شیعہ اسلام کو فروغ ملا اور سلطنت کا سرکاری مذہب قرار پایا۔
تصویر: picture-alliance/Dumont/T. Schulze
شیخ صفی الدین کا مزار
صفوی دور کے شیخ صفی الدین شاعر اور صوفی بزرگ تھے۔ اُن کا مزار یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہے۔اردبیل میں واقع مزار پہلے شیخ صفی الدین کا تربیتی و تعلیمی مرکز تھا۔ اربیل کا شہر صفوی دور حکومت میں ایک متبرک شہر خیال کیا جاتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/P. Langer
یزد کا قدیمی شہر
جدید ایران کے تقریباً وسط میں یزد کا شہر واقع ہے۔ یہ صحرا میں ایک نخلستان پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اپنے دور میں یہ زرتشتی مذہب کا مرکز و محور بنا۔ عظیم الشان عبادت خانوں کی وجہ سے بھی یزد شہر مشہور ہے۔ اس شہر کے اندر آبی گزرگاہوں کا نظام جسے قناط ٹکنالوجی کہا جاتا ہےقابل دید تھا۔یہاںونڈ ٹاورز بھی قائم کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/R. Zimmermann
یزد کا آتش کدہ
زرتشتی مذہب میں آگ انتہائی مقدس و متبرک ہے اور تخلیق کائنات کی اساس خیال کی جاتی ہے۔ یزد کا آتشکدہ مرکزی عبادت خانہ تھا۔ یہ عبادت کے ساتھ ساتھ زائرین اور عقیدت مندوں کی ملاقاتوں اور تبادلہٴ خیال کا ایک مقام بھی تھا۔ زرتشتی دور حکومت دوسری سے ساتویں صدی عیسوی میں اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
باغ ارم
ارم گارڈن تاریخی فارسی باغات کی ایک متاثر کن مثال ہے جو قرون وسطی میں پہلی بار تعمیر ہوا تھا۔ اونچی دیواروں سے گھرا ہوا،ان میں عام طور پر واٹر چینل اور ایک سمر محل شامل ہوتا ہے۔ فارسی ثقافت کا ایک اہم حصہ،باغات نے زمینی جنت کے تصور کو مجسم بنایا۔ یہ لفظ در حقیقت باغیانے کے لئے قدیم فارسی اصطلاح سے ماخوذ ہے ، "پیرادیدا"۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
اصفہان کا سی وسہ پل
دریائے ژائندہ پر بنائے گئے گیارہ پلوں میں ایک سی وسہ پل ہے۔ یہ دو منزلہ پل صفوی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا سن تعمیر سولہویں صدی ہے۔ اس میں کئی چائے خانے بہت مشہور ہیں۔ اس مقام پر لوگ بڑے شوق و ذوق سے طعام کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تہران کا گلستان محل
قاجار خاندان کے دور کی یہ نشانی ایرانی دارالحکومت تہران میں موجود ہے۔ اس کے بعض حصے سن 1925 اور 1945 کے درمیان مسمار کر دیے گئے تھے۔ ان مسمار شدہ جگہوں پر نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ آج کل گلستان محل میں قدیمی زیورات، ہتھیاروں اور ظروف کا میوزیم قائم ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/S. Auth
تہران کا مینار آزادی
تہران میں تعمیر کیا گیا فریڈم ٹاور پینتالیس میٹر بلند ہے۔ یہ جدید دور کا ایک شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل یہ یادگارِ شاہ کے نام سے موسوم تھا۔ اسے بادشاہ رضا شاہ نے ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار برس مکمل ہونے کے موقع پر تعمیر کروایا تھا۔ اس کا طرز تعمیر ساسانی دور سے ملتا ہے۔