1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن نے مغربی سفارت کاروں کی ملک بدری کا فیصلہ واپس لیا

26 اکتوبر 2021

مغربی ممالک کے 10 سفارت کاروں کو ''ناپسندیدہ شخصیت'' قرار دینے کے بعد لگتا ہے کہ ترک صدر نے اب اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ طیب ایردوآن نے جرمنی سمیت دس مغربی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی تھی۔

Türkei Recep Tayyip Erdogan in Eskisehir
تصویر: Murat Cetinmuhurdar/Turkish Presidency/AA/picture alliance

ترک صدر رجب طیب ایردوآن  25 اکتوبر پیر کے روز اپنی اس دھمکی کو واپس لیتے ہوئے نظر آئے، جس میں دو روزقبل انہوں نے امریکا اور جرمنی سمیت دس مغربی ممالک کے سفارت کاروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک بدر کرنے کی بات کہی تھی۔

مغربی ممالک نے ترکی کے حقوق انسانی کے ایک کارکن عثمان کوالا کی حمایت میں بیان دیا تھا جس سے ترک صدر کافی برہم تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے ان سفارت کاروں کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔

 کوالا سول سوسائٹی کے کارکن ہیں جو فلاحی کام کرتے رہے ہیں۔ انہیں سن 2016 میں ہونے والے مظاہروں کی مالی معاونت اور بغاوت کی کوشش میں ملوث ہونے جیسے الزام کے تحت حراست میں لیا گیا تھا تب سے وہ جیل میں ہیں۔

ترک صدر طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ان سفارت کاروں نے ایک نیا بیان جاری کیا ہے جس کی وجہ سے ان کا موقف نرم ہوا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمارے ملک کے خلاف بہتان تراشی سے ایک قدم پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اب وہ زیادہ محتاط رہیں گے۔''

ترک صدر کے اس رویے میں تبدیلی امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے ایک ہی جیسے ایسے بیانات جاری کرنے کے بعد آئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اس کنونشن کا احترام کرتے ہیں جس کے مطابق سفارت کاروں کو اپنے میزبان ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

سفارتی تنازعے کی ابتدا کیسے ہوئی

گزشتہ ہفتے انقرہ میں امریکا، جرمنی، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، ناروے اور سویڈن کے سفارت خانوں نے مشترکہ طور پر ایک بیان جاری کر کے عثمان کوالا کے کیس کو حل کرنے کے لیے آواز اٹھائی تھی۔ ان ممالک کے سفیروں کو ترک وزارت خارجہ میں طلب کر کے ان کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا گیا تھا۔

تصویر: Murat Cetinmuhurdar/Turkish Presidency/AA/picture alliance

بیان سے نالاں ترک صدر طیب ایردوآن نے اس کے رد عمل میں کہا تھا، ''ترکی کی عدلیہ کسی سے احکام نہیں لیتی اور نہ ہی کسی کے ماتحت ہے۔'' انہوں نے اس بیان میں ملوث ممالک پر الزام لگایا کہ وہ ترکی کی خود مختاری کی خلاف ورزی میں ملوث ہو رہے ہیں۔ ہفتے کے اواخر انہوں نے ان تمام 10 سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی تھی۔

لیکن پیر کے روز وہ اس طرح کی سخت کارروائی کرنے کے اپنی دھمکی سے پیچھے ہٹ گئے۔ حکومت کے ایک ترجمان نے متنبہ کرتے ہوئے کہا، ''ہماری حکومت یہ ثابت کرنے کے لیے مزید کسی بھی اقدام سے پیچھے نہیں ہٹے گی کہ ہم اپنی قومی خود مختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنے والے ہیں۔''

طیب ایردوآن کی ''فتح''

ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار ڈوریان جونز کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک نے جو بیان جاری کیا ہے اسے ترک صدر، ''اپنی ایک بڑی فتح کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔'' ان کے مطابق اپنی کابینہ کی میٹنگ میں ترک صدر نے کہا کہ بیرونی طاقتیں اب بھی ترکی کو دھمکی دے رہی ہیں اور ملک اسے کبھی برداشت نہیں کرے گا۔

ترک صدر نے مغربی ممالک کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان ممالک نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے بیان کا مطلب ملک کے داخلی امور میں مداخلت کرنا ہرگز نہیں تھا۔ جونز کے مطابق خطے میں ترکی کی اسٹریٹیجک لحاظ سے بڑی اہمیت ہے اسی لیے وہ ترکی سے سفارتی تعلقات منقطع کرنا نہیں چاہتے ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز) 

ایردوآن سے لڑائی مول لینے والا ترک باکسر

02:06

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں