ایردوآن کی نئی مشکل: قیمتوں میں اضافہ، لیرا کی قدر میں کمی
21 جولائی 2018
ترکی میں صدر ایردوآن کو ایک نئے دردِ سر کا سامنا ہے، جو ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ ترک کرنسی لیرا کی قدر میں زبردست کمی جاری ہے، قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے اور ترک مرکزی بینک تقریباﹰ بے بس ہے۔
اشتہار
ڈوئچے ویلے کی نامہ نگار ژُولیا ہان لکھتی ہیں کہ ترکی میں نئے صدارتی پارلیمانی نظام حکومت کے تحت ابھی حال ہی میں دوبارہ سربراہ مملکت کے عہدے پر فائز ہونے والے رجب طیب ایردوآن کو اس وقت داخلی طور پر جن مشکل حالات کا سامنا ہے، کئی اقتصادی اور سیاسی ماہرین کے مطابق یہی حالات ایردوآن کے اقتدار کے لیے ایک بڑا خطرہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
ترکی میں اس وقت عام اشیاءکی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے اور ملکی کرنسی لیرا کی قدر مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ صدر ایردوآن یہ بھی چاہتے ہیں کہ ترک معیشت ہر قیمت پر تیز رفتاری سے ترقی کرتی رہی اور حکومت کو معیشت پر مسلسل کنٹرول بھی رہے۔ لیکن بیک وقت ایشیا اور یورپ میں واقع اس مسلم اکثریتی ریاست میں اس وقت جو حالات پائے جاتے ہیں، ان میں ترک مرکزی بینک قطعی طور پر بے بس نظر آتا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ کہ ترکی میں حال ہی میں سبزیوں اور شیائے خوراک کی قیمتوں کا جو بحران دیکھنے میں آیا، اسے ماہرین نے ’آلوؤں کے بحران‘ کا نام دیا۔ اس وقت ترکی میں آلوؤں کی قیمتیں اگرچہ دوبارہ کچھ کم ہونا شروع ہو گئی ہیں، لیکن سب سے زیادہ کھائی جانے والی سبزی کے طور پر ابھی تک ایک کلوگرام آلو سات لیرا تک کے عوض فروخت ہو رہے ہیں۔ یہ قیمت ایک سال پہلے کے مقابلے میں آلوؤں کی فی کلوگرام قیمت کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔
اسی طرح پیاز اور ٹماٹروں جیسی سبزیوں تک کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور افراط زر کی یہ بہت اونچی شرح عام ترک صارفین کے گرفت سے باہر نکلتی جا رہی ہے۔ مزید یہ کہ پٹرول کی قیمتیں، گھروں کے کرائے اور سبزیوں پھلوں کے نرخوں تک، ترک شہری ہر شعبے میں نظر آنے والی افراط زر کی بہت اونچی شرح پر شدید پریشان ہیں۔
استنبول کی سب سے بڑی سبزی منڈی میں ایک تاجر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم اب اشیائے خوراک میں سے بہت سی اشیاء کے لیے پہلے کے مقابلے میں دوگنا قیمتیں ادا کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ حکومتی پالیسیاں ہیں اور حکومت کو بالآخر اب کچھ کرنا چاہیے کہ عام شہریوں کی زندگی مالی حوالے سے مسلسل عذاب ہی نہ بنتی جائے۔‘‘
ترک معیشت میں گزشتہ برس ترقی کی سالانہ رفتار 7.4 فیصد رہی تھی، جو چین میں اقتصادی ترقی کی سالانہ رفتار سے بھی زیادہ تھی۔ لیکن ساتھ ہی ترکی کا تجارتی خسارہ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور افراط زر 15 فیصد کی ریکارڈ شرح تک پہنچ چکا ہے جبکہ سال رواں کے آغاز سے اب تک ترک لیرا کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدر میں بھی قریب 20 فیصد تک کی کمی ہو چکی ہے۔
صدر رجب طیب ایردوآن نے جون میں جب صدارتی الیکشن میں دوبارہ کامیابی حاصل کی تھی، تو اس کے نتیجے میں ترکی میں سربراہ مملکت، سربراہ حکومت اور پارٹی کی قیادت سمیت تین اہم ترین سیاسی عہدے ایک ہی شخصیت کو منتقل ہو گئے تھے۔ پھر اپنی حلف برداری کےموقع پر ایردوآن نے ترک عوام سے ایک ’شاندار مستقبل‘ کا وعدہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا، ’’ترکی عنقریب دنیا کی دسویں بڑی اقتصادی طاقت بن جائے گا۔‘‘
استنبول، مذہبی تہذیب اور سیکیولر روایات کا امتزاج
یورپ اور ترکی کے سیاسی تنازعات کے باوجود ان میں چند مشترکہ ثقافتی روایات پائی جاتی ہیں۔ پندرہ ملین رہائشیوں کا شہراستنبول جغرافیائی حوالے سے دو برِاعظموں میں بٹا ہوا ہے۔ ثقافتی تضادات کے شہر، استنبول کی تصاویری جھلکیاں
تصویر: Rena Effendi
استنبول کی روح میں یورپ بسا ہوا ہے
ترکی کا شہر استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں یعنی ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔ استنبول میں روایتی اور جدید طرز زندگی کے عنصر نظر آتے ہیں۔ تاہم مذہبی اور سیکولر طرزِ زندگی اس شہر کی زینت ہے۔ کثیر الثقافتی روایات کا جادو شہرِ استنبول کی روح سے جڑا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
دو ہزارسال قدیم شہر
استنبول کی تاریخ قریب دو ہزار چھ سو سال پر محیط ہے۔ آج بھی اس شہر میں تاریخ کے ان ادوار کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ماضی میں کئی طاقتور حکومتوں نے استنبول کے لیے جنگیں لڑیں، خواہ وہ ایرانی ہوں کہ یونانی، رومی سلطنت ہو کہ سلطنتِ عثمانیہ۔ جیسا کہ قسطنطنیہ سلطنتِ عثمانیہ کا مرکز رہنے سے قبل ’بازنطین‘ کا مرکز بھی رہا۔ بعد ازاں سن 1930 میں پہلی مرتبہ ترکی کے اس شہر کو استنبول کا نام دیا گیا۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول، دو مختلف ثقافتوں کے درمیان
آبنائے باسفورس کو استنبول کی ’نیلی روح‘ کہا جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس ترکی کو ایشیائی حصے سے جدا کرکے یورپی حصے میں شامل کرتی ہے۔ یہاں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں ہزاروں مسافر روزانہ یہ سمندری پٹی عبور کر کے دو براعظموں کے درمیاں سفر طے کرتے ہیں۔ مسافر تقریبا بیس منٹ میں یورپی علاقے ’کراکوئی‘ سے ایشیائی علاقے ’کاڈیکوئی‘ میں داخل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
قدیم قسطنطنیہ کا ’غلاطہ پل‘
غلاطہ پل ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے۔ یہاں لوگ بحری جہازوں کے دلکش مناظر دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ طویل قطاروں میں کھڑے لوگ ڈوری کانٹے سے مَچھلی پَکَڑنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ یہ سیاحتی مقام بھی ہے، یہاں مکئی فروش، جوتے چمکانے والے اور دیگر چیزیں فروخت کرتے ہوئے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سن 1845 میں پہلی مرتبہ یہ پل قائم کیا گیا تھا، تب استنبول کو قسطنطنیہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
تصویر: Rena Effendi
’یورپ ایک احساس ہے‘
میرا نام فیفکی ہے، ایک مچھلی پکڑنے والے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں خود کو یورپی شہری سمجھتا ہوں۔ ہم زیادہ آزادی کے خواہش مند ہیں لہٰذا ترکی اور یورپ کو ایک ساتھ ملنا چاہیے۔ فیفکی ریٹائرڈ ہوچکا ہے اورمچھلیاں پکڑنے کا شغف رکھتا ہے۔ تاہم فیفکی نے بتایا کہ اس سے تھوڑی آمدنی بھی ہوجاتی ہے۔ دو کلو مچھلی کے عوض اسے آٹھ یورو مل جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے قلب میں سجے مینار
استنبول شہر کے مرکز تقسیم اسکوائر پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ یہاں ایک مسجد پر تیس میٹر اونچا گنبد اور دو مینار تعمیر کیے جارہے ہیں۔ ترکی میں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات تک یہ تعمیراتی کام مکمل ہوجائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان تاریخی مرکز کو نئی شناخت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ ’سیاسی اسلام‘ اور قدامت پسند سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی عکاسی کرتی ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول یورپی شہر ہے لیکن مذہبی بھی
استنبول کا ’’فاتح‘‘ نامی ضلع یورپی براعظم کا حصہ ہونے کے باوجود ایک قدامت پسند علاقہ مانا جاتا ہے۔ اس علاقے کے رہائشیوں کا تعلق اناطولیہ سے ہے۔ یہ لوگ روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں استنبول آتے ہیں۔ مقامی افراد ’’فاتح‘‘ کو مذہبی علاقے کے حوالے سے پکارتے ہیں، جہاں زیادہ تر لوگ ترک صدر اردگان اور ان کی سیاسی جماعت ’اے کے پی‘ کے رکن ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
مساجد کے سائے تلے خریداری
ہر ہفتے بدھ کے روز ’’فاتح مسجد‘‘ کے سامنے ایک بازار لگتا ہے۔ اس بازار میں گھریلو سامان، ملبوسات، چادریں، سبزیاں اور پھل دستیاب ہوتے ہیں۔ یہاں ملنے والی اشیاء کی قیمت نسبتاﹰ مناسب ہوتی ہے۔ فاتح ضلعے میں اب زیادہ تر شامی مہاجرین منتقل ہو رہے ہیں۔ ترکی میں تین ملین سے زائد شامی تارکین وطن موجود ہیں۔ سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے بعد شامی شہریوں کو پناہ دینے کے اعتبار سے ترکی سرفہرست ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے وسط میں واقع ’مِنی شام‘
استنبول کا ضلع فاتح شامی ریستورانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں کے ڈونر کباب میں لہسن کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ترکی میں مہاجرین کو ’’میسافر‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ترکی میں سیاسی پناہ کا قانون یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے قدرے مختلف ہے۔ تاہم ترک حکومت کی جانب سے دس ہزار شامی مہاجرین کو ترک شہریت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
’ہپستنبول‘ کی نائٹ لائف
اگر آپ شراب نوشی کا شوق رکھتے ہیں تو استنبول کے دیگر اضلاع میں جانا بہتر رہے گا، ایشیائی حصے میں واقع کاڈیکوئی علاقہ یا پھر کاراکوئی۔ یہاں کی دکانوں، کیفے، اور گیلریوں میں مقامی افراد کے ساتھ سیاح بھی دِکھتے ہیں۔ تاہم ترکی کی موجودہ قدامت پسند حکومت کے دور اقتدار میں شراب نوشی کسی حد تک ایک مشکل عمل ہوسکتا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے شہری یورپی سیاحوں کے منتظر
غلاطہ کے علاقے میں واقع ایک ڈیزائنر دُکان میں کام کرنے والی خاتون ایشیگئول کا کہنا ہے کہ ’استنبول بہت زیادہ تبدیل ہو چکا ہے‘۔ استنبول میں چند سال قبل زیادہ تر یورپی سیاح چھٹیاں بسر کرنے آتے تھے تاہم اب عرب سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایشیگئول کا کہنا ہے کہ یہ ان کے کاروبار کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ امید کرتی ہیں کہ یہ سلسہ جلد تبدیل ہوجائے گا۔
تصویر: Rena Effendi
11 تصاویر1 | 11
ترک مرکزی بینک کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ایردوآن نے اپنی گزشتہ انتخابی مہم کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ وہ دوبارہ صدر بن کر ملک کی مالیاتی سیاست کو زیادہ بہتر طور پر حکومتی کنٹرول میں لائیں گے۔ یہ بات ترک مرکزی بینک کی آزادی اور غیر جانبداری کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو گی۔ یہی نہیں گزشتہ ہفتے صدر ایردوآن نے ایک صدارتی حکم نامہ بھی جاری کر دیا تھا، جس کے تحت وہ ترک مرکزی بینک کے سربراہ اور نائب سربراہ کو خود نامزد کر سکیں گے۔
کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ترکی میں مرکزی بینک اپنی کوششوں کے باوجود آزاد اور غیر جانبدار نہیں ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات اتیلا یسیلادا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر ترک مرکزی بینک واقعی آزاد اور غیر جانبدار ہوتا، تو وہ دو سال پہلے ہی ملک میں شرح سود میں واضح اضافہ کر دیتا تاکہ افراط زر کی شرح قابو میں لائی جا سکے۔‘‘
لیکن اب تک ایسا اس لیے نہیں ہو سکا کہ صدر ایردوآن اونچی شرح سود کو ہی ہر مسئلے کی جڑ سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف ہیں کہ مرکزی بینک کی طرف سے اس شرح میں اضافہ کیا جائے۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ترکی کو اس وقت افراط زر کی بہت اونچی شرح کا سامنا ہے۔
ژُولیا ہان / م م / ع ب
سلطنت عثمانیہ کی یادگار، ترکی کا تاریخی گرینڈ بازار
ترکی کے شہر استنبول میں واقع تاریخی گرینڈ بازار کا شمار دنیا کے قدیم ترین بازاروں میں ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد سن چودہ سو پچپن میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں رکھی گئی۔ گرینڈ بازار میں اکسٹھ گلیاں اورسینکڑوں دکانیں ہیں-
تصویر: DW/S. Raheem
اکسٹھ گلیاں، تین ہزار دکانیں
تین ہزار سے زائد مخلتف اشیاء کی دوکانوں والے اس صدیوں پرانے خریدو فروخت کے مرکز کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے کم وبیش ہر طرح کی اشیاء خریدوفروخت کے لیے موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
صدیوں سے چلتا کاروبار
یہاں پر چمڑے اور سلک کے ملبوسات تیار کرنیوالوں، جوتا سازوں، صّرافوں، ظروف سازوں، قالین بافوں، گھڑی سازوں، آلات موسیقی اور کامدار شیشے سے خوبصورت لیمپ تیار کرنیوالوں کی صدیوں سے چلی آ رہی دوکانیں بازار کی تاریخی حیثیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
زلزلے سے نقصان
گرینڈ بازار کو اپنے قیام کے بعد مختلف ادوار میں شکست وریخت کا سامنا کرنا پڑا۔ سولہویں صدی میں آنے والے زلزلے نے اس بازار کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ لیکن منتظمین نے بڑی حد تک اسے اپنی اصل شکل میں برقرار رکھا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
تین لاکھ خریدار روزانہ
ایک اندازاے کے مطابق روزانہ اڑھائی سے تین لاکھ افراد گرینڈ بازار کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں مقامی افراد کے علاوہ بڑی تعداد غیر ملکی سیاحوں کی بھی ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
فانوس و چراغ
خوبصورت نقش و نگار والے فانوسوں اور آنکھوں کو خیرہ کرتی روشنیوں والے دیدہ زیب لیمپوں کی دکانیں اس تاریخی بازار کی الف لیلوی فضا کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ترکی کی سوغاتیں
بازار میں خریدار خاص طور پر ترکی کی سوغاتیں خریدنے آتے ہیں۔ ان میں انواع واقسام کی مٹھائیاں اور مصالحہ جات شامل ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
پانی کے نلکے
صدیوں پرانے اس بازار کی ایک قابل ذکر بات یہاں پر اس دور میں مہیا کی جانےوالی سہولیا ت ہیں۔ جن میں سب سے نمایاں یہاں لگائے گئے پانی کے نل ہیں جن سے آج بھی یہاں آنے والے اپنی پیاس بجھا ر ہے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
اکیس دروازے
بازار میں داخلے اور اخراج کے لئے مختلف اطراف میں اکیس دروازے ہیں اور ہر ایک دروازے کو مختلف نا م دیے گئےہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خواتین کے پرس
بازار میں خواتین کے دستی پرس یا ہینڈ بیگز سے لدی دوکانوں کی بھی کمی نہیں۔ یہاں پر اصل اور مصنوعی چمڑے اور مقامی کشیدہ کاری کے ڈیزائنوں سے مزین بیگ ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ معروف بین الاقوامی برانڈز کی نقول بھی باآسانی دستیاب ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
سونے کے زیورات بھی
طلائی زیورات اورقیمتی پتھروں کے شوقین مرد وخواتین کے ذوق کی تسکین کے لئے بھی گرینڈ بازار میں متعدد دوکانیں موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خوش اخلاق دوکاندار
اس بازار کی ایک اور خاص بات یہاں کے دوکانداروں کا مختلف زبانوں میں گاہکوں سے گفتگو کرنا ہے۔ بازار میں گھومتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے دوکاندار گاہکوں کے ساتھ انگلش، عربی ، جرمن ، اردو اور ہندی زبانوں میں گفتگو کرتے سنائی دیتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
گرم شالیں
مقامی ہنرمندوں کے ہاتھوں سے تیار کی گئی گرم شالیں بھی یہاں خریداری کے لئے آنے والوں میں خاصی مقبول ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
بھاؤ تاؤ بھی چلتا ہے
گرینڈ بازار میں آنے والے گاہک دوکانداروں سے بھاؤ تاؤ کر کے قیمت کم کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اس میں وہ اکثر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
دیدہ زیب سجاوٹ
ترکی کے مخلتف علاقوں میں تیار کیے جانے والے آرائشی سامان کو یہاں اتنے خوشنما طریقے سے سجایا جاتا ہے کہ قریب سے گزرنے والے ایک نظر دیکھے بغیر نہیں رہ سکتے۔
تصویر: DW/S. Raheem
شیشے کی دوکانیں
گرینڈ بازار میں ترک اور عرب نوجوانوں میں مقبول شیشے کی دوکانیں بھی ہیں جہاں مخلتف رنگوں کے شیشے اور ان میں استعمال ہونیوالا تمباکو بھی مختلف ذائقوں میں دستیاب ہے۔