سابق ترک نائب وزیر اعظم علی باباجان نے اس سال کے آخر تک ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ صدر رجب طیب ایردوآن کی حکمران جماعت 'اے کے پی‘ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔
اشتہار
علی بابا جان کے حوالے سے گزشتہ کئی مہینوں سے چہ میگوئیاں جاری تھیں۔ باباجان نے شدید اختلافات کے بعد رواں برس جولائی میں 'اے کے پی‘ سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ آج منگل کو شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا، '' اس میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ ہم 2020ء سے قبل سیاسی جماعت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں پر معیار کی اہمیت ہو گی۔‘‘
علی باباجان نے ایردوآن کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکمران جماعت اپنے بنیادی اصولوں سے دوری اختیار کر چکی ہے اور وہ اپنے ہم خیال افراد سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ ایک نئی جماعت قائم کی جا سکے۔
علی باباجان کے بقول،'' انسانی حقوق، آزادی اظہار، عوامیت پسند جمہوریت اور قانون کی حکمرانی جیسی اقدار کا ہم نے ہمیشہ دفاع کیا ہے اور ہم ان پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ اصول ہمارے لیے وقتی سیاسی ترجیح نہیں ہیں۔‘‘
مسلم دنیا میں ایردوآن کا دوست کون، مخالف کون؟
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو مسلم ممالک میں یا تو بے انتہا پسند کیا جاتا ہے یا پھر ان کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ صدر ایردوآن کے حامیوں اور مخالفین میں مسلم دنیا کے کون سے اہم رہنما پیش پیش ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kamaci
مصری صدر السیسی اور ایردوآن
صدر ایردوآن اور مصری صدر السیسی کے تعلقات مصر میں اخوان المسلمون کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوئے۔ صدر ایردوآن کے مطابق السیسی فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے اس لیے انہیں برسراقتدار رہنے کا حق نہیں۔ دوسری جانب قاہرہ کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم ہے اور ایردوآن اس کے حامی ہیں۔ یہ دونوں ممالک لیبیا میں بھی آمنے سامنے ہیں۔
تصویر: Reuters
شیخ خلیفہ بن زید اور ایردوآن
ترک اماراتی تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے بھی ایردوآن کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارک نہیں دی تھی۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں خلیجی تنازعہ اور ’سیاسی اسلام‘ کے معاملے پر اختلافات نمایاں ہیں۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک میڈیا نے متحدہ عرب امارات پر باغیوں کی معاونت اور حمایت کے الزامات عائد کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Y. Bulbul
سعودی ولی عہد اور ایردوآن
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے مابین اختلاف کی بنیادی وجہ ’مسلم ممالک کی قیادت‘ ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تو ترکی پر یہ الزام بھی عائد کر چکے ہیں کہ انقرہ اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Asfouri
ترکی اور پاکستان
ترکی اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات کئی عشروں پر محیط ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنا بھائی قرار دیتے ہیں۔ صدر ایردوآن کے شریف خاندان کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں لیکن انہوں نے عمران خان کو بھی خوش آمدید کہا۔ مسئلہ کشمیر پر ترکی نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔
تصویر: Reuters/Presidential Press Office/K. Ozer
صدر بشار الاسد اور صدر ایردوآن
شامی صدر بشار الاسد کا شمار بھی صدر ایردوآن کی شدید مخالفت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ صدر ایردوآن شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے صدر بشار الاسد کے اقتدار سے الگ کیے جانے کا اپنا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں اور ایک تقریر میں تو ایردوآن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ وہ ’شام کو آزاد‘ کرائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عراق اور ترکی
ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات سن 2016 کے بعد اس وقت زیادہ کشیدہ ہو گئے تھے جب ترک فوجیں عراق کے شمالی حصے میں داخل ہو گئی تھیں۔ عراق نے ترک فوجی کارروائی کو اپنی ریاستی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/The Presidency of the Republic of Iraq Office
شیخ تمیم اور ایردوآن
قطر اور خلیجی ممالک کے مابین تنازعے کے دوران ترکی نے قطر کی حمایت کی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین دیرینہ اقتصادی اور عسکری تعلقات بھی ہیں۔ اسی وجہ سے قطری امیر پرنس تمیم احمد الثانی صدر ایردوآن کو انتخابات کے بعد مبارک دینے والے پہلے عالمی رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/C. Oksuz
صدر روحانی اور ایردوآن
ایران اور ترکی کے مابین تعلقات حالیہ برسوں کے دوران مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ اگرچہ شامی تنازعے، خاص طور پر صدر اسد کے مستقبل کے حوالے سے ایران اور ترکی کا موقف مختلف ہے، تاہم اس تنازعے کے حل کے لیے بھی یہ دونوں ممالک روس کے ساتھ مل کر کوشاں ہیں۔
تصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images
مراکش اور صدر ایردوآن
مراکش اور ترکی کے مابین بھی قریبی تعلقات ہیں۔ ترکی نے مراکش میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ مراکشی وزیر اعظم سعد الدین العثمانی کی جماعت اور صدر ایردوآن کی سیاسی جماعت کے بھی آپس میں قریبی رابطے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Domingo
لیبیا اور ترکی
طرابلس میں ترک پرچم لہرانے والے یہ مظاہرین ترک صدر کو پسند کرتے ہیں۔ ترکی نے طرابلس حکومت کی مدد کے لیے اپنے فوجی دستے حال ہی میں وہاں تعینات کیے ہیں۔ اس ملک میں مصر اور سعودی عرب ترکی کا اثرو رسوخ کم کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/H. Turkia
سوڈان اور ترکی
سوڈان کے سابق صدر عمر حسن البشیر کا شمار ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے پرانے دوستوں میں ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین قریب اقتصادی تعلقات بھی تھے۔ البشیر حکومت کے خاتمے کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابیں اب پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔
تصویر: picture alliance/abaca/K. Ozer
11 تصاویر1 | 11
انہوں نے مزید کہا کہ ان تمام تر کامیابیوں کے بعد ترکی کو آج جن حالات کا سامنا ہے یہ بہت ہی افسوسناک ہیں۔ ان کے بقول جب ان حالات کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ حکومت نے ان تمام اقدار اور یہ تمام اصول پس پشت ڈال دیے ہیں۔
علی باباجان 'اے کےپی‘ کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔ وہ اے کے پی کے پہلے دور میں وزیر معاشیات اور وزیر خارجہ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد 2009ء میں انہیں نائب وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا۔ وہ 2015ء تک اس عہدے پر براجمان رہے۔
بہت عرصے سے ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ باباجان 'اے کے پی‘ کے سابق صدر عبداللہ گل کے ساتھ مل کر ایک نئی حریف جماعت بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم جون کے مہینے میں استنبول کے علاقائی انتخابات میں 'اے کے پی‘ کی ناکامی کے بعد نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ان کی کوششوں میں تیزی آ گئی تھی۔