ترکی میں اتوار کے روز ہوئے علاقائی انتخابات میں عوام کی نظریں دونوں اہم ترین شہروں انقرہ اور استنبول کے نتائج پر لگی ہوئی ہیں۔ انقرہ میں صدر ایردوآن کی جماعت کو شکست کا سامنا ہے جبکہ استنبول کی صورتحال ابھی تک واضح نہیں۔
اشتہار
اتوار 31 مارچ کو ہوئے علاقائی انتخابات میں حکمران جماعت اور حزب اختلاف دونوں دعویٰ کر رہی ہیں کہ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع شہر استنبول میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تاہم ابھی تک ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں ہو سکی ہے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ ملک بھر سے حاصل ہونے والے ابتدائی نتائج کے مطابق (اے کے پی) کو 48 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ حزب اختلاف کی ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 31 فیصد ہے۔ انقرہ میں حزب اختلاف کے امیدوارکی کامیابی پر حکمران جماعت کی جانب سے ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈیویلمپمنٹ پارٹی( اے کے پی) نے دعویٰ کیا ہے کہ علاقائی انتخابات میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور تقریباً سولہ بڑے شہروں میں میئر کی ذمہ داریاں ان کے امیدوار نبھائیں گے۔ 2014ء میں ہوئے گزشتہ انتخابات میں اٹھارہ شہروں میں ’اے کے پی‘ کے میئر منتخب ہوئے تھے۔
استنبول میں ’اے کے پی‘ کے امیدوار بن علی یلدرم نے اعلان کیا ہے کہ انہیں چار ہزار ووٹوں کی برتری کا سامنا ہے۔ دوسری جانب سی ایچ پی کے رہنما اکرام اماموگلو نے بھی استنبول میں کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
10 تصاویر1 | 10
امامو گلو نے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے سے قبل صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اے کے پی پر انتخابی عمل میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا تاہم بعد ازاں اتوار کی شب انہوں نے کہا کہ نتائج کو دیکھتے ہوئے وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ استنبول میں سی ایچ پی کو ہی برتری حاصل ہے۔
ترکی میں ہونے والے علاقائی انتخابات کو صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کی حکومت کی مقبولیت کا ایک امتحان بھی قرار دیا جا رہا تھا۔ ترکی آج کل شدید اقتصادی مسائل کا شکار ہے اور اس کی کرنسی لیرا کی قدر مییں شدید کمی آ چکی ہے۔