1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن کے ’کرائے کے شامی جنگجو‘ لیبیا کے لیے مزید خطرہ

12 فروری 2020

انقرہ حکومت کی طرف سے ایسے باغی جنجگوؤں کو لیبیا میں لڑنے کے لیے بھرتی کیا جا رہا ہے جو شام میں اسد حکومت کے خلاف برسرپیکار رہ چکے ہیں۔ یہ اقدام لیبیا اور پورے خطے کو مزید غیر مستحکم بنا سکتا ہے۔

Türkei l Erdogan will Truppen nach Libyen schicken - Türkei unterstütztende Kämpfer der al-Mutasim-Brigade
تصویر: Getty Images/AFP/N. Al-Khatib

ترک حکومت نے گزشتہ دو ماہ کے دوران کم از کم دو ہزار شامی عسکریت پسندوں کو لیبیا میں لڑنے کے لیے بھرتی کیا ہے۔ ان میں سے ہر جنگجو کو نہ صرف ماہانہ دو ہزار امریکی ڈالر دیے جائیں گے بلکہ انہیں ترک شہریت دینے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔

میڈیا اداروں کے مطابق انقرہ حکومت کے ساتھ اس طرح کے معاہدے کرنے والے شامی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ یہ ایسے عسکریت پسندوں کے لیے بہترین پیشکش ہے، جو شامی علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور جہاں انہیں دیا جانے والا مالی معاوضہ انتہائی کم ہے۔

برطانوی اخبار گارڈیئن کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران کم ازکم 650 شامی عسکریت پسندوں کو لیبیا پہنچایا جا چکا ہے جہاں وہ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ وزیر اعظم فیاض السراج کی حکومت کی مدد کر رہے ہیں جبکہ 1350 ایسے شامی عسکریت پسندوں کو ترکی میں عسکری تربیت دی جا رہی ہے۔

'نیو یارک ریویو آف بُکس‘ نے ایک سابق شامی افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ مزید چھ ہزار شامی عسکریت پسندوں کو طرابلس  کے مغرب کی جانب ایک جنگی محاذ پر پہنچانے کا منصوبہ بھی ہے، جہاں لیبیا کے جنگی سردار خلیفہ حفتر کی فوج اپنی یلغار جاری رکھے ہوئے ہے۔

شامی اپوزیشن کی سیریئن نیشنل آرمی، انقرہ حکومت، فیاض السراج کی 'گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ‘ اور دیگر فریقوں کی جانب سے اس طرح کے کسی معاہدے یا منصوبے کی تردید کی جاتی ہے۔ تاہم یہ رپورٹیں گزشتہ برس دسمبر میں ترکی کی طرف سے السراج حکومت کی مدد کی یقین دہانی کے بعد سامنے آئیں۔ خلیفہ حفتر کی مدد کرنے والوں میں مصر، فرانس، اردن، اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک شامل ہیں۔ اس  کے علاوہ روس کے چھ سو اور سوڈان کے تین ہزار جنگجوؤں کے بھی لیبیا بھیجے جانے کی اطلاعات ہیں۔

لیبیا میں کرائے کے فوجی بھیجنے کا سلسلہ برلن میں ہونے والی حالیہ لیبیا امن کانفرنس کے اعلامیے کے باوجود جاری ہے جس میں ترکی، روس اور متحدہ عرب امارات جیسے ریاستوں نے لیبیا کے داخلی معاملات اور اس مسلح تنازعے میں اپنے شامل نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

ترک حکمت عملی

اخبار گارڈیئن کے مطابق انقرہ کی طرف سے شام کے شمالی حصے میں عسکریت پسندوں کو بھرتی کیا جاتا ہے جس کے بعد انہیں ترکی لایا اور پھر وہاں سے لیبیا پہنچا دیا جاتا ہے۔ ان عسکریت پسندوں کے ساتھ چھ ماہ کا معاہدہ کیا جاتا ہے جو ترک فوج  کے بجائے لیبیا کی حکومت یا جی این اے کے ساتھ ہوتا ہے۔

رپورٹوں کے مطابق انقرہ زخمی ہونے والے ایسے جنگجوؤں کے علاج معالجے کے اخراجات بھی اٹھاتا ہے جبکہ مرنے والوں کی لاشوں کو واپس شام پہنچانے کی ذمہ داری بھی ادا کرتا ہے۔ شامی حالات پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ایسے 14 افراد کی لاشیں اب تک واپس شام پہنچائی جا چکی ہیں۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا تاہم کہنا ہے کہ ان کے ملک نے محض 35 فوجی مشیر لیبیا کی حکومت کی مدد کے لیے بھیجے ہیں۔

لیبیا کے معاملات پر نظر رکھنے والے سکیورٹی ماہر مِرکو کائل برتھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ترکی روسی حکمت عملی کے ردعمل میں یہ کام کر رہا ہے جیسا کہ اس نے شام میں بھی کیا، تاکہ وہ لیبیا کی تعمیر  نو کے عمل میں معاشی مفادات حاصل کر سکے اور یورپ پر اپنا دباؤ بھی ڈال سکے۔ وہ کہتے ہیں، ''ترکی کئی افریقی ممالک میں بھی اپنے معاشی مفادات رکھتا ہے اور ان علاقوں میں بذریعہ مذہب اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔‘‘

ایک نیا طویل المدتی عدم استحکام؟

ایک ایسی نئی فورس جس میں کرائے کے غیر ملکی شدت پسند جنگجو شامل ہوں، علاقے میں ایک نئے طویل المدتی مسئلے کے بارے میں سوالات کا باعث بن رہی ہے کیونکہ اسی طرح کی صورتحال نے افغانستان اور عراق میں مزید عدم مستحکم پیدا کیا تھا۔

'جرمن کونسل آن فارن ریلیشنز‘ سے منسلک لارا کابِس کیشرِڈ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا، اس  کے ہمسایہ ممالک اور مسائل کے شکار افریقہ کے ساحل کے علاقے کے لیے مسلم عسکریت پسندوں کے حوالے سے خطرات کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ ان کی کتنی تعداد لیبیا پہنچتی ہے اور وہ وہاں کتنا عرصہ رُکتے ہیں۔

کیشرڈ کا مزید کہنا ہے، ''جیسے جیسے شام سے لیبیا آنے والے مسلم جنگجوؤں کی تعداد بڑھے گے، ان کے لیے واپس جانا اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد لیبیا میں طویل عرصے کے لیے موجود رہے گی اور ہمسایہ ممالک میں بھی جائے گی۔‘‘

صرف یہی نہیں بلکہ ترکی کی طرف سے ایسے جنگجوؤں کو ترکی کی شہریت دینے سے ان خطرات میں بھی اضافہ ہو گا کہ وہ بعد ازاں ممکنہ طور پر یورپ کا رُخ بھی کر سکتے ہیں۔

مائیگریشن ایکسپرٹ وِکٹوریہ رِیٹگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک ایسا شامی جس کے پاس ترکی کا پاسپورٹ ہو، وہ امریکا اور شینگن علاقوں کا ویزا حاصل کر سکتا ہے جو صرف شامی پاسپورٹ رکھنے کی صورت میں مشکل یا تقریباﹰ نا ممکن ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کرائے کے ان جنگجوؤں کا مستقبل کیا ہو گا۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ا ب ا / م م (تھامس اَیلِنسن، عمار عبدالرحمٰن)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں