ایردوآن یورپی یونین کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کوشاں
عاطف توقیر
3 جنوری 2018
ترک صدر رجب طیب ایردآن جمعے کے روز پیرس پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ فرانسیسی صدر امانویل ماکروں سے ملاقات کریں گے۔ ایردوآن کا یہ دورہ یورپی یونین اور ترکی کے درمیان تعلقات میں کشیدگی میں کمی کو کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نئے سال کے آغاز کے موقع پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی کوشش ہے کہ گزشتہ برس انقرہ حکومت اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات میں دیکھا جانے والا تناؤ کسی طور پر کم کیا جا سکے۔
ماکروں ایلیزے پیرس میں ترک صدر ایردوآن کی میزبانی کریں گے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان شامی تنازعے کے علاوہ باہمی اقتصادی تعاون میں اضافے پر بھی گفت گو ہو گی۔ اس کے علاوہ ماکروں ایردوآن کو ترکی میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے فرانسیسی تشویش سے بھی آگاہ کریں گے۔
مولانا جلال الدین رومی کا سات سو چوالیسواں عرس
ترکی کے تاریخی شہر ’’قونیہ‘‘ کو تیرہویں صدی عیسوی کے صوفی بزرگ اور شاعر مولانا جلال الدین رومی کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ ان کے سالانہ عرس کی دس روزہ تقریبات سترہ دسمبر تک جاری رہیں گے۔
تصویر: DW/S. Raheem
مولانا کے سات سو چوالیسویں عرس کی تقریبات میں شرکت کے لیے ترکی اور دنیا بھر سے ان کے پیروکار، سیاح اور مداح کونیا پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
مولانا کے مزار کے داخلی راستے پر عقیدت مندوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
سب کی کوشش ہوتی ہے کہ مولانا جلال الدین رومی کی آخری آرام گاہ کی زیارت کی جائے۔
تصویر: DW/S. Raheem
مولانا رومی کے مزار کی عمارت میں ان کے اہل خانہ، شاگردوں اور اس دور کی دیگر اہم روحانی اور علمی شخصیات کی قبریں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
مزار کے اندر زیارت کے لیے آنے والوں کا ہر وقت رش رہتا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
مزار کے احاطے می سلجوق دور میں پینے کے پانی کے لئے قائم کیا گیا مقام اب بھی یہاں آنے والوں کی پیاس بھجا رہا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال رومی کو اپنا مرشد مانتے تھے۔ اقبال کی شاعری پر بھی رومی کی شاعری کا رنگ غالب ہے۔ اقبال کے اپنے مرشد سے اسی عشق کو دیکھتے ہوئے رومی کے مزار کے احاطے میں اقبال کی علامتی قبر بھی بنائی گئی ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
مزار کے عجائب گھر میں مولانا کے زیر استعمال اشیاء کو بھی محفوظ رکھا گیا ہے۔ زیر نظر تصویر مولانا رومی کی مخصوص ٹوپیوں کی ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
یہاں پر ایک درویش کی زندگی اور رہن سہن سے متعلق لوگوں کو معلومات فراہم کرنے کے لئے مومی مجسموں کا سہارا لیا گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
مولانا روم کے مزار کے قریب ہی ایک کلچرل سینٹر ہے جہاں ہر شب مقامی وقت کے مطابق آٹھ بجے محفل سماع کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مولانا سے منسوب درویش رقص پیش کرتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
کونیا میں تیار کی جانے والی مختلف انواع کی مٹھائیاں بھی یہاں حاضری دینے والوں میں بہت مقبول ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
رات کے وقت مولانا کا مزار مزید خوبصورت نظر آتا ہے۔ شہر کے وسط میں واقع مولانا رومی کا مزار قونیہ شہر کی پہچان ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
12 تصاویر1 | 12
تاہم ان دونوں رہنماؤں کے درمیان سب سے اہم موضوع ترکی اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات ہیں۔ ترکی گزشتہ کئی برسوں سے یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے، تاہم گزشتہ برس اس حوالے سے اپنی خراب ترین سطح پر دیکھا گیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانس کی قربت سے ترکی یورپی یونین میں شمولیت کی اپنی کوششوں کو تقویت دینا چاہتا ہے۔ یونیورسٹی آف پیرس کے سیاسیات کے شعبے کی پروفیسر اور ترک خارجہ پالیسی کے موضوع پر ایک کتاب کی مصنفہ ژانا جابووآ کے مطابق ایک ایسے موقع پر جب یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے امریکی بیان کے بعد انقرہ حکومت اور واشنگٹن انتظامیہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے، ایردوآن فرانس سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں۔
ترک دارالحکومت انقرہ کی کچی بستیاں اور آئینی ریفرنڈم
انقرہ کی پسماندہ بستیوں کے باسیوں کو صدر رجب طیب ایردوآن کے دور میں زیادہ سہولتیں اور سماجی مراعات ملی ہیں لیکن یہ ترک شہری پھر بھی عنقریب منعقدہ ریفرنڈم میں صدر کے اختنیارات میں اضافے کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
دھواں دھواں بستیاں
سردیوں میں ترکی کے کم آمدنی والے علاقوں کے اوپر فضا میں دھوئیں کے بادل معلق رہتے ہیں۔ اس کی وجہ اس علاقے میں کوئلے سے چلنے والے تندور اور ہیٹر ہیں۔ جب سے رجب طیب ایردوآن برسرِاقتدار آئے ہیں، ترکی کے ان غریب ترین باشندوں کو خود کو گرم رکھنے کے لیے کوئلہ مفت مل رہا ہے۔ لیکن اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ووٹ بھی ایردوآن ہی کو ملیں گے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ان ووٹروں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا
ترکی میں مجوزہ ریفرنڈم میں سوال یہ ہے کہ آیا اس ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ ایک ایسا صدارتی نظام رائج کر دیا جائے، جس کی کمان ایردوآن اور اُن کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کے ہاتھوں میں ہو۔ اگرچہ ایردوآن نے سماجی خدمات کے پروگراموں کے ذریعے غریبوں کی زندگیاں بہتر بنائی ہیں، لیکن ان بستیوں کے ووٹر ابھی بھی اپنے ووٹ کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
غریبوں کی جماعت
’’جب میرا شوہر بے روزگار تھا، تب میرا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ میں کوئلہ کہاں سے لاؤں۔ پھر اے کے پی نے ہمیں مفت کوئلہ دے دیا اور تب مجھے احساس ہوا کہ یہ جماعت غریبوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یہ باتیں تین بچوں کی ماں ایمل یلدرم نے ڈی ڈبلیو کو بتائیں: ’’پہلے کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔اب ہسپتال غریبوں کو اپنے ہاں قبول کرنے کے لیے زیادہ آمادہ نظر آتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
کُرد ووٹ
ایمل یلدرم کا تعلق کُرد آبادی سے ہے اور اسی لیے وہ ترک ریاست اور کرد عسکریت پسندوں کے درمیان تنازعات پر بھی فکرمند ہیں: ’’اگر ایردوآن کو ’ہاں‘ میں ووٹ مل جاتا ہےتو حالات بہتر ہو جائیں گے۔ وہ کہتا ہیں کہ وہ امن کے خواہاں ہیں۔ دوسری طرف صلاح الدین دیمرتاس (جیل میں قید اپوزیشن رہنما) سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ ایردوآن کُردوں کو خون میں نہلا دیں گے ... ایسے میں کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
شک و شبہ حاوی ہے
بستی کے ایک راستے کے کنارے انتخابی مہم کے پوسٹر میں لپٹا ایک صوفہ۔ یہاں ایردوآن کے بارے میں جذبات ملے جلے ہیں۔ قریب ہی پچیس سالہ علی اپنی فیملی کار میں کلیجی کے سینڈوچ بیچ رہا ہے۔ اُس نے بتایا: ’’پندرہ مارچ کو اُنہوں نے یہاں کے باسیوں کو کوئلے سے بھرے تھیلے دیے۔ آخر وہ بہار کے موسم میں ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ سردیاں تو گئیں۔ یہ یقیناً ووٹوں کے لیے ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
’سسٹم میں خرابی ہے یا؟‘
علی نے بتایا کہ اسے حکومتی صفوں میں موجود کرپشن پر زیادہ تشویش ہے۔ علی نے کہا: ’’میں نہیں جانتا کہ خرابی نظام میں ہے یا اسے چلانے والے لوگوں میں۔ اسی طرح کے سوالات میرے ذہین میں اسلام کے حوالے سے بھی ہیں۔ کیا مسئلہ مذہب کا ہے یا اُن لوگوں کا، جو اس کا نام لے کر خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ میری باتوں سے لگتا ہو گا کہ میں ریفرنڈم میں مخالفت میں ووٹ دوں گا لیکن درحقیقت میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
اپنے شوہر کے نقشِ قدم پر
تین سالہ عائشہ اپنے گھر کے سامنے کھڑی ہے۔ اُس کی ماں نے کہا کہ وہ اپنا نام ظاہر کرنا یا تصویر اُتروانا نہیں چاہتی لیکن یہ کہ ریفرنڈم میں اُس کا جواب ’ہاں‘ میں ہو گا کیونکہ اُس کا شوہر بھی ایسا ہی کرے گا۔ یلدرم نے کہا کہ اُس کا شوہر، جو ایک باورچی کے طور پر کام کرتا ہے، اس لیے ’ہاں‘ میں ووٹ دے گا کیونکہ ’اُس کے خیال میں ایردوآن جو بھی کہتا ہے، درست کہتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
ریفرنڈم؟ کس بارے میں؟
فریدہ تورہان (دائیں) اور اُس کا شوہر مصطفیٰ (بائیں) اپنے ڈرائنگ روم میں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ موجود ہیں۔ فریدہ کے مطابق اُسے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ ریفرنڈم ہے کس بارے میں: ’’مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن میں روز خبریں دیکھتی ہوں اور مجھے کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ یہ ریفرنڈم ہے کیا۔ مجھے ابھی بھی نہیں پتہ کہ یہ ترامیم ہیں کس بارے میں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
سلامتی سب سے مقدم
مصطفیٰ تورہان بھی (تصویر میں نہیں)، جو سبزی منڈی میں رات کی شفٹ میں کام کرتا ہے، کہتا ہے کہ سلامتی کا معاملہ اولین اہمیت رکھتا ہے۔ اُس نے بتایا کہ اے کے پی نے حالیہ برسوں کے دوران کم آمدنی والے علاقوں میں ایمبولینس سروسز کا دائرہ پھیلایا ہے لیکن تشدد پھر بھی بڑھ رہا ہے: ’’رات کو اے کے سینتالیس رائفلوں سے مسلح نقاب پوش لوگوں کولوٹ لیتے ہیں، کبھی کبھی تو دس دس سال کے بچوں کے پاس بھی گنیں ہوتی ہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
تعلیم کا شعبہ پسماندگی کا شکار
مصطفیٰ کے مطابق اُن کے آس پاس اسکولوں کی حالت بھی بہتر نہیں ہو رہی: ’’ہم مفت کوئلہ اس لیے قبول کر لیتے ہیں کیونکہ ہم حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں اور یہ ایک طریقہ ہے، وہ پیسہ واپس لینے کا لیکن ہم اس بات کو ترجیح دیں گے کہ حکومت اسکولوں میں زیادہ سرمایہ کاری کرے تاکہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے امکانات بہتر ہو سکیں۔‘‘ اُس کا بڑا بیٹا آج کل کام کی تلاش میں ہے اور ابھی ناکامی کا سامنا کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
ترک صدر ایردوآن نے حالیہ کچھ عرصے میں روس، خلیجی اور افریقی ممالک کے متعدد دورے کئے، تاہم جولائی 2016ء میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد وہ یورپی ممالک شاذ ونادر ہی گئے۔ گزشتہ برس اگر جی ٹوئنٹی اور نیٹو سربراہی اجلاسوں کو ایک طرف کر دیا جائے، تو ترک صدر نے فقط پولینڈ اور یونان کا دورہ کیا۔
یہ بات اہم ہے کہ ترکی اور جرمنی کے درمیان تعلقات حالیہ کچھ عرصے میں شدید تر ہوئے ہیں۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں جاری حکومتی کریک ڈاؤن پر برلن حکومت شدید تشویش کا ظہار کرتی ہے۔ اسی تناظر میں متعدد جرمن شہری بھی ترکی میں زیرحراست ہیں، مگر حالیہ کچھ عرصے میں کچھ جرمن باشندوں کو رہا بھی کیا گیا ہے۔