1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن نے تیسری مرتبہ ترک صدر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا

3 جون 2023

ایردوان نے اٹھائیس مئی کو صدراتی انتخابات میں اپوزیشن کے امیدوار کمال کلیچ دار اولو کو واضح برتری کے ساتھ شکست دی تھی۔ اب انہیں مہنگائی، شامی مہاجرین کی وطن واپسی اور زلزلہ متاثرین کی بحالی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

Türkei, Ankara | Recep Tayyip Erdogan, Amtseid & Einweihungszeremonie
تصویر: Chris McGrath/Getty Images

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ہفتے کے روز تیسری مرتبہ اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا۔ اب وہ اپنی نئی پانچ سالہ مدت کا آغاز کر رہے ہیں۔ وہ ملک میں پارلیمانی نظام کے تحت ماضی میں تین مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر بھی رہ چکے ہیں۔

69 سالہ ایردوآن نے اٹھائیس مئی کو صدارتی دوڑ میں کامیابی حاصل کر کے اپنی 20 سالہ حکمرانی کی مدت میں مزید اضافہ کیا تھا۔ پچاسی ملین آبادی کا ملک ترکی، مغربی فوجی اتحاد نیٹو میں دوسری سب سے بڑی فوج رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ براعظم ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع یہ ملک لاکھوں شامی پناہ گزینوں کا میزبان بھی ہے اور اس نے روس سے جنگ کے دوران  یوکرین سے اناج کی ترسیل کو یقنی بنا کر ایک عالمی خوراک کے بحران سے نمٹنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

صدر ایردوآن پارلیمنٹ میں اپنے اتحادی اراکین کے ہمراہ تصویر: Umit Bektas/REUTERS

ایردوآن نے اپنے وسیع و عریض صدارتی محل کے احاطے افتتاحی تقریب میں شرکت سے قبل پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران حلف لیا۔ ان کے حامیوں نے دارالحکومت انقرہ میں موسلا دھار بارش کے باوجود پارلیمنٹ کے باہر  ان کا انتظار کیا۔

صدارتی الیکشن میں ایردوآن کامیاب، ترک انتخابی بورڈ کا اعلان

سب کی نظریں اب ان کی نئی کابینہ کے اعلان پر لگی ہوئی ہیں۔ اس نئی کابینہ کی تشکیل سے ہی یہ بات واضح ہو سکے گی کہ آیا ان کی حکومت کی ماضی کی غیر روایتی اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا یہ وہ روایتی اقتصادی پالیسیوں کی جانب واپس لوٹیں گے۔

اس تقریب میں شرکت کے لیے جو درجنوں غیر ملکی معززین انقرہ پہنچے ان میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اشٹولٹن برگ اور سابق سویڈیش وزیر اعظم  کارل بلڈٹ بھی شامل ہیں۔  توقع کی جا رہی ہے کہ بلڈٹ سویڈن کی نیٹو رکنیت کے حوالے سے ایردوآن کے اعتراضات کے خاتمے کی کوشش کریں گے۔ خیال رہے کہ نیٹو میں کسی نئے رکن کی شمولیت کے لیے اس اتحاد میں پہلے سے موجود تمام ارکان کی منظور ضروری ہے۔

ترک انتخابات میں ایردوآن کی جیت، ناقدین پر سختی کا خدشہ

02:05

This browser does not support the video element.

اس کے علاوہ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان، آذربائیجان کے صدر الہام علییف، وینیزویلا کے صدر نکولاس مدورو، جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا، آرمینیا کےوزیر اعظم نکول پشینیان، پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ شامل ہیں۔

 ایردوآن کی  حلف برداری ایک ایسے موقع پر ہو ئی ہے، جب انہیں ایک تباہ حال معیشت، لاکھوں شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی اور چھ فروری کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

فروری میں آنے والے اس تباہ کن زلزلے میں 50,000 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور ملک کے جنوب حصے میں تقریباﹰ تمام بڑے شہر زمین بوس ہو گئے تھے۔

ایردوآن نے 28 مئی کو ہونے والے رن آف ووٹ میں حزب اختلاف کے حریف کمال کلیچ دار اولو کو شکست دی تھی۔ اس سے قبل 14 مئی کو ووٹنگ کے پہلے راؤنڈ میں کوئی بھی امیدوار واضح طور پر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ کِلیچ دار اولو نے ترکی کو مزید جمہوری راستے پر ڈالنے اور اس کے مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔  بین الاقوامی مبصرین نے ان انتخابات کو آزادانہ لیکن منصفانہ نہیں سمجھا۔

 ش ر ⁄ ک م ( اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں