ایسا بھی ہوتا ہے: ایک دن کے کام کی تنخواہ ترانوے ہزار یورو
7 فروری 2020
کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کوئی شخص ایک منتخب عوامی نمائندے کے طور پر صرف ایک دن کام کرے اور اسے اس کا معاوضہ ترانوے ہزار یورو ملے، جو ایک لاکھ دو ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتا ہے؟ ایک جرمن سیاستدان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔
اشتہار
جرمنی کے مشرق میں واقع وفاقی صوبے تھیورنگیا میں بدھ پانچ فروری کو ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی کے صوبائی سربراہ ٹوماس کَیمیرِش کو نیا ریاستی وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا تھا۔ ان کا انتخاب جرمنی کی داخلی سیاست میں ایک بحران کی وجہ بنا اور اس سیاسی زلزلے کے شدید جھٹکے ملکی دارالحکومت برلن تک محسوس کیے گئے تھے۔
اس بحران کی وجہ یہ بنی کہ کَیمیرِش کے انتخاب کے لیے ان کی اپنی پارٹی کے علاوہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کے ارکان نے بھی ووٹ دیے تھے۔ لیکن کَیمیرِش کی حمایت میں انتہائی دائیں باز وکی ملک میں مہاجرین کی آمد اور اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کرنے والی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کے پارلیمانی ارکان نے بھی حمایت کی تھی۔
چانسلر میرکل کا مطالبہ
یہ بحران اس لیے پیدا ہوا کہ ایک ایسی سیاسی جماعت جس کے ساتھ جرمنی کی قومی سطح کی کوئی بھی بڑی پارٹی کسی بھی قسم کا سیاسی تعاون نہیں کرنا چاہتی، اس کے ارکان کے ووٹ لے کر کَیمیرِش وزیر اعلیٰ کیوں منتخب ہوئے۔ اتنا ہی بڑا اعتراض یہ بھی تھا تھیورنگیا کے نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے سیاسی طور پر میرکل کی جماعت اور غیر ملکیوں کی مخالف پارٹی اے ایف ڈی جیسے 'ہم خیال اور ہم رکاب‘ ہو گئی تھیں۔
ناقدین کا ایک فیصلہ کن اعتراض یہ تھا کہ ترقی پسندوں کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے کَیمیرِش نے وزیر اعلیٰ بننے، یعنی اپنے اقتدار میں آنے کے لیے ایک ایسی جماعت کی ارکان کی حمایت پر انحصار کیا، جس کی سیاست کے خلاف تقریباﹰ تمام بڑی جرمن سیاسی جماعتیں جدوجہد کر رہی ہیں۔
یہ بات اتنی پھیل گئی تھی اور کَیمیرِش کے تھیورنگیا کے سربراہ حکومت کے طور پر اس طرح انتخاب کی اتنی شدید مذمت کی جا رہی تھی کہ بدھ پانچ فروری کو ہی چانسلر میرکل نے بھی یہ مطالبہ کر دیا تھا کہ اس الیکشن کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔
اگلے ہی دن استعفیٰ
پھر نتیجہ یہ نکلا کہ تھیورنگیا کے نئے وزیر اعلیٰ بہت زیادہ سیاسی اور اخلاقی دباؤ کا سامنا نہ کر سکے اور اپنے انتخاب کے صرف ایک روز بعد جمعرات چھ فروری کی شام وہ اپنے عہدے سے مستعفی بھی ہو گئے۔ اس طرح ان کا انتخاب اور پھر استعفیٰ اس حوالے سے بھی جرمنی میں ایک تاریخی واقعہ ثابت ہوا کہ وہ صرف تقریباﹰ 24 گھنٹے تک وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے تھے۔
لیکن انتظامی اور مالیاتی حوالے سے اس سیاسی بحران اور اس کے فوری خاتمے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کَیمیرِش اگر وزیر اعلیٰ رہتے، تو انہیں ان کے فرائض کی انجام دہی کا معاوضہ تو ملنا ہی تھا کیونکہ سیاسی عہدوں پر فائز شخصیات کو تنخواہیں تو ملتی ہی ہیں۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
قانون کیا کہتا ہے؟
ٹوماس کَیمیرِش چاہے ایک دن کے لیے ہی سہی، مگر تھیورنگیا کے وزیر اعلیٰ تو رہے تھے۔ اس بارے میں قانون یہ کہتا ہے کہ اگر وہ چند ہفتے یا چند ماہ کے لیے بھی وزیر اعلیٰ رہتے مگر اس عرصے کا دورانیہ چھ ماہ سے کم ہی ہوتا، تو بھی انہیں اپنے عہدے سے رخصتی پر کم از کم چھ ماہ کی تنخواہ تو لازمی ملتی۔ اب یہ ایک بالکل علیحدہ بات ہے کہ صوبائی سربراہ حکومت کے طور پر ان کے اقتدار کا دورانیہ دو دنوں کے دوران مجموعی طور پر صرف تقریباﹰ 24 گھنٹے رہا تھا۔ اس لیے اب انہیں اتنی تنخواہ ضرور ملے گی، کہ جیسے وہ کم از کم چھ ماہ تک صوبائی حکمران رہے۔
'فی گھنٹہ چار ہزار یورو‘
چھ ماہ کی تنخواہ کی یہ رقم مجموعی طور پر 93 ہزار یورو بنتی ہے، جو ایک لاکھ دو ہزار امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو کَیمیرِش کو محض 24 گھنٹے تک ملازمت کرنے کا معاوضہ 93 ہزار یورو ملے گا، یعنی فی گھنٹہ اجرت تقریباﹰ چار ہزار یورو۔
ایک دن کے کام کی اتنی زیادہ اجرت اس لیے بھی بہت عجیب بات ہے کہ دنیا میں عملی طور پر شاید ہی کوئی دوسرا ایسا سیاستدان ہو، جس کی فی گھنٹہ تنخواہ تقریباﹰ 4000 یورو بنتی ہو۔ جرمن صوبے تھیورنگیا میں وزیر اعلیٰ کی ماہانہ تنخواہ تقریباﹰ 16 ہزار یورو ہوتی ہے۔
جینیفر کامینو گونزالس (م م / ع ح)
اہم عالمی رہنما کتنا کماتے ہیں
دنیا بھر کے اہم ممالک کے سربراہان حکومت اور ریاست کو ان کی خدمات کے عوض کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Warnecke
۱۔ لی شین لونگ
دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنخواہ سنگاپور کے وزیر اعظم لی شین لونگ کی ہے۔ اس عہدے پر اپنی خدمات کے عوض وہ ہر ماہ ایک لاکھ سینتالیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر رقم وصول کرتے ہیں۔
تصویر: imago/ZUMA Press/UPI
۲۔ الائن بیرسیٹ
سوئٹزرلینڈ کی کنفیڈریشن کے صدر الائن بیریسٹ کی ماہانہ تنخواہ قریب چھتیس ہزار ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/D. Balibouse
۳۔ انگیلا میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی تنخواہ یورپی یونین میں سب سے زیادہ اور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ بطور رکن پارلیمان اور ملکی چانسلر ان کی مجموعی ماہانہ تنخواہ 27793 یورو (چونتیس ہزار ڈالر سے زائد) بنتی ہے اور انہیں اس پر ٹیکس بھی ادا نہیں کرنا پڑتا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Schrader
۴۔ ملیکم ٹرن بُل
آسٹریلوی وزیر اعظم میلکم ٹرن بُل کی سالانہ تنخواہ پانچ لاکھ اٹھائیس ہزار آسٹریلوی ڈالر ہے جو کہ ساڑھے تینتیس ہزار امریکی ڈالر ماہانہ کے برابر ہے۔ یوں وہ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Rycroft
۵۔ ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر کی سالانہ تنخواہ چار لاکھ ڈالر ہے جو ماہانہ 33 ہزار تین سو تینتیس ڈالر بنتی ہے۔ صدر ٹرمپ سب سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے سربراہان مملکت میں اگرچہ پانچویں نمبر پر ہیں لیکن انہوں نے تنخواہ نہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/Pool/R. Sachs
۶۔ چارلس مشیل
’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق بلیجیم کے وزیر اعظم چارلس مشیل اٹھائیس ہزار ڈالر کی ماہانہ تنخواہ کے ساتھ عالمی سطح پر چھٹے اور یورپ میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
۷۔ سرجیو ماتریلا
اطالوی صدر سرجیو ماتریلا ساتویں نمبر پر ہیں اور اس عہدے پر خدمات کے عوض انہیں ماہانہ تئیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ ملتی ہے۔
تصویر: Reuters/Presidential Press Office
۸۔ جسٹن ٹروڈو
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو عالمی سطح پر زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے رہنماؤں کی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ قریب سوا بائیس ہزار امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Tang
۹۔ کرسٹی کالیولائیڈ
یورپی ملک ایسٹونیا کی اڑتالیس سالہ صدر کرسٹی کالیولائیڈ کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Charlier
۱۰۔ لارس لوکے راسموسن
ڈنمارک کے وزیر اعظم اس فہرست میں دسویں نمبر پر ہیں اور انہیں ماہانہ پونے بیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ ملتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Florin
۱۱۔ سٹیفان لووین
سویڈن کے وزیر اعظم سٹیفان لووین کی ماہانہ تنخواہ تقریبا ساڑھے انیس ہزار ڈالر بنتی ہے اور وہ اس فہرست میں گیارہویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/I.Hell
۱۲۔ جمی مورالیس
وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا کے صدر جمی مورالیس کی ماہانہ تنخواہ بھی انیس ہزار تین سو امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/A. Sultan
۱۳۔ آذر الیے
’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق آذربائیجان کے صدر آذر الیے کی ماہانہ تنخواہ بھی انیس ہزار ڈالر ہے۔
تصویر: Imago/Belga/F. Sierakowski
۱۴۔ ایمانوئل ماکروں
یورپی یونین کی دوسری مضبوط ترین معیشت فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں کی ماہانہ تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار ڈالر سے زائد ہے جو کہ جرمن چانسلر کی تنخواہ سے نمایاں طور پر کم ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Marin
۱۵۔ شینزو آبے
پندرہویں نمبر پر جاپانی وزیر اعظم شیزو آبے ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ سولہ ہزار سات سو ڈالر کے قریب بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Kambayashi
پاکستان سمیت دیگر اہم عالمی رہنما
اب تک آپ سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے پندرہ رہنما دیکھ چکے، آگے جانیے روس، ترکی، بھارت اور پاکستان جیسے ممالک کے رہنماؤں کی تنخواہوں کے بارے میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Warnecke
ٹریزا مے
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کی ماہانہ تنخواہ ساڑھے سولہ ہزار ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Brady/PA Wire
رجب طیب ایردوآن
ترک صدر رجب طیب ایردوآن ہر ماہ تیرہ ہزار ڈالر بطور تنخواہ لیتے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی تنخواہ کئی دیگر اہم رہنماؤں سے کم ہے۔ انہیں ہر ماہ ساڑھے بارہ ہزار ڈالر ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Y. Kadobnov
عبدالفتاح السیسی
مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی ماہانہ تنخواہ پانچ ہزار آٹھ سو امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture -alliance/Sputnik/Vitaliy Belousov
نریندر مودی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس فہرست میں کافی نیچے ہیں اور ان کی امریکی ڈالر میں ماہانہ تنخواہ قریب پچیس سو بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh
شی جن پنگ
دوسری مرتبہ چینی صدر منتخب ہونے والے شی جن پنگ ممکنہ طور پر’تا حیات‘ چینی صدر رہ سکتے ہیں۔ ’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق ان کی تنخواہ محض ایک ہزار سات سو ڈالر کے برابر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Ng Han Guan
شاہد خاقان عباسی
پاکستانی وزیر اعظم کو ملنے والی ماہانہ تنخواہ دنیا عالمی سطح پر انتہائی کم ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق شاہد خاقان عباسی کو ماہانہ قریب ساڑھے بارہ سو امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ دی جاتی ہے۔