اسلام آباد پولیس نے پاکستانی صحافی طحہٰ صدیقی کے اغوا کی مبینہ کوشش میں ملوث دس سے بارہ مسلح افراد کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
اشتہار
پاکستانی صحافی اسد ہاشمی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر طحہٰ صدیقی کی تصاویر شئیر کیں۔ ہاشمی کے مطابق صدیقی کو ایک گاڑی میں زبردستی بٹھایا گیا لیکن یہ چلتی گاڑی سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہاشمی کے مطابق صدیقی کو مارا پیٹا گیا اور انہیں قتل کرنے کی دھمکی بھی دی گئی۔
اس واقعے کے بعد صدیقی نے صحافی سرل المائیڈا کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹوئٹ میں لکھا،''میں صبح آٹھ بجے کے قریب ایئرپورٹ جا رہا تھا جب دس سے بارہ مسلح افراد نے میری ٹیکسی کو روکا اور مجھے زبردستی اغوا کرنے کی کوشش کی۔ میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اب میں محفوظ ہوں اور پولیس کے ساتھ ہوں۔‘‘
طحہٰ نے کہا کہ انہیں اس وقت مدد کی ضرورت ہے اور انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں ہیش ٹیگ StopEnforcedDisappearances بھی استعمال کیا۔
ٹوئٹر پر کئی صحافی طحہٰ کے حق میں بات کر رہے ہیں۔ صحافی حامد میر نے لکھا،’’مجھے بھی انہوں نے مارنے کی پوری کوشش کی۔ کئی کلومیڑ میرا پیچھا کیا۔ مجھے آخری گولی ہسپتال کے قریب جا کر لگی لیکن وہ سب اللہ سے زیادہ طاقت ور نہیں تھے۔‘‘
پاکستان میں صحافیوں کے قتل اور ان پر حملوں پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کے شریک بانی اسد بیگ نے کہا،’’صدیقی پر کس نے حملہ کیا یہ تو تحقیقاتی اداروں کو بتانا ہوگا۔ لیکن صحافیوں پر کل حملوں میں سے صرف تین فیصد کیسز میں ہی تحقیقاتی ادارے اس کا جواب دے سکے ہیں۔ اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ جرم کس نے کیا، یہ معلوم کرنا شاید ناممکن ہوگا۔‘‘
بیگ نے کہا،’’جبری گمشدگیوں کے رجحان اور ایک سال پہلے اغوا ہونے والے کارکنان کی کہانیاں سن کر لگتا ایسا ہی کہ ان حملوں میں ریاست کے ادارے ملوث ہیں۔‘‘ بیگ نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ پولیس اس کیس کی تحقیقات کر سکے گی۔
بیگ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا،’’یہ اسلام آباد میں صحافیوں پر چوتھا حملہ ہے۔ اعزاز، مطیع اللہ، نورانی اور اب طحہٰ، اور واضح رہے کہ یہ تمام صحافی سکیورٹی پولیس کے شدید ناقد ہیں۔ ان پر حملے کیا محض اتفاق ہیں؟‘‘
صحافی سید شاہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’پاکستان میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے صحافیوں پر تشدد، دباؤ اور انہیں ہراساں کرنے کا ایک رجحان ہے۔ صحافیوں پر قاتلانہ حملوں اور ان کو جان سے مار دینے کے واقعات کی بھی تحقیقات نہیں کی جاتیں۔‘‘
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء میں پاکستان میں چار صحافیوں کو مختلف واقعات میں ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطربناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔
’صحافت کی آزادی‘ کے شکار صحافی
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔